وہ ملحد تھا مگر جب اسے حق کا ادراک ہوا تو ایمان کا نور دل و دماغ میں جگمگایا تو وہ دنیائے اسلام میں ایک قد آور شخصیت بن کر ابھرا۔قلم کا جادو گر ، دنیائے صحافت کا ایک درخشاں ستارہ،اسلام کا سچا سپاہی۔ اپنی ذمّہ داریوں کو بھرپور انداز میں سرانجام دینے کی خاطر شب و روز عوامی جذبے کی ترجمانی میں مصروف ہو گیا،کیونکہ اسے ادارک ہو گیا تھا کہ جو قلم کار سچے جذبے کی ترجمانی نہ کر سکے اس کے الفاظ کتنے ہی حسین کیوں نہ ہوں،تحریر موثر نہ ہو سکے گی۔
مولانا عبد الماجد دریابادی 16 مارچ 1892 کو دریا آباد، ضلع بارہ بنکی، بھارت میں ایک قدوائی خاندان میں پیدا ہوئے۔ اُن کے دادا مفتی مفتی مظہر کریم کو انگریز سرکار کے خلاف ایک فتویٰ پر دستخط کرنے کے جرم میں جزائر انڈومان میں بطور سزا کے بھیج دیا گیا تھا۔ آپ نے تفسیر ماجدی میں سورۃ یوسف کے آخر میں لکھا ہے کہ اٹھاونویں پشت پر جا کر آپ کا شجرہ نسب لاوی بن یعقوب سے جا ملتا ہے
ابتداء میں مولانا عبدالماجد دریا بادی پہ ایک وقت ایسا آیا تھا کہ وہ ملحد ہو چکے تھے۔بعض علماء کرام کی طرف سے ان کی تکفیر کے فتوے بھی جاری ہوئے لیکن پھر شبلی نعمانی کی کتاب سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی کایا پلٹ دی۔ان پہ مزید مولانا اشرف علی تھانوی سے اردات کے بعد چڑھا جب ذہن سے تشکیک کے سارے پردے ہٹ گئے۔
آپ ہندوستانی مسلمان محقق اور مفسر قرآن تھے۔ آپ بہت سے تنظیموں سے منسلک رہے۔ اِن میں تحریک خلافت، رائل ایشیاٹک سوسائٹی،لندن، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ،ندوۃ العلماء، لکھنؤ، شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ کے علاوہ اور بہت سی اسلامی اور ادبی انجمنوں کے رکن تھے۔
عبد الماجد دریابادی نے انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی ایک جامع تفسیر قرآن لکھی ہے۔ اُن کی اردو اور انگریزی تفسیر کی خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے یہ تفاسیر اسلام پر مسیحیت کی طرف سے کیے جانے والے اعتراضات کو سامنتے رکھتے ہوئے لکھی ہے، مزید ان تفاسیر میں مسیحیت کے اعتراضات رد کرتے ہوئے بائبل اور دوسرے مغربی مستشرقین کی کتابوں سے دلائل دیے ہیں۔
انہوں نے شبلی نعمانی سے ملاقات کے بعد اُن کی سیرت النبی کی تصنیف میں اُن کے ساتھ کام کیا۔اُن کے مولانا ابو الکلام آزاد، سید سلیمان ندوی، محمد علی جوہر، اکبر الہ بادی اور دوسرے بہت سے عظیم مصنیفین کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے۔
06جنوری 1977 کو صبح ساڑھے4 بجےخاتون منزل (لکھنؤ)میں عبدالماجد دریابادی خالق حقیقی سےجا ملے۔نماز جنازہ ، وصیت کے مطابق نماز ظہر کے بعد ندوۃالعماء کے میدان میں مولانا ابو الحسن ندوی نے پڑھائی۔اس کے بعد جسد خاکی کو دریا باد لے جایا گیا وہاں بھی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ان کے مکان سے متصل ایک آبائی بزرگ حضرت آب کش کا مزار تھا اس کے قریب ہی آپ کی تدفین ہوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا عبدالماجد دریا آبادی نے قرآن، سیرت، سفر ناموں، فلسفہ اور نفسیات پر 50 سے زیادہ کتابیں لکھیں۔ انہوں نے اپنی سوانح حیات، بہت سے ادبی اور تنقیدی مضامین بھی لکھے۔ انہوں نے ریڈیو گفتگو کی میزبانی بھی کی اور بہت سی کتابوں کا اردو ترجمہ بھی کیا۔ ان کی کتابوں کی کچھ تفصیل ذیل میں ہے۔
(تنقیدات)
اقبالیات ماجد،
اکبر نامہ،
انشائے ماجد،
مضامین ماجد،
مقالات ماجد،
نشریات ماجد۔
(قرآنیات و متعلقات)
ارض القران،
اعلام القران،
بشریت انبیاء،
تصوف اسلام،
تفسیر ماجدی،
تمدن اسلام کی کہانی،
جدید قصص الانبیاء کے چند ابواب،
خطبات ماجد،
سچی باتیں،
سلطان ما محمدﷺ،
سیرن النبوی ﷺ قرآنی،
قتل مسیح سے یہودیت کی بریت،
مسائل و قصص،
مردوں کی مسیحائی،
مشکلات القرآن،
ندوۃ العلما کا پیام ،
یتیم کا راج۔
(آپ بیتی و سوانح)
آپ بیتی(ماجد)،
اردو کا ادیب اعظم،
چند سونحی تحریریں،
حکیم الامت ،
نقش و تاثرات،
محمد علی ذاتی ڈائری کے چند ورق،(جلد اول و دوم)
محمود غزنوی معاصرین،
دفیات ماجدی۔
(فلسفہ و نفسیات)
غذائے انسانی،
فلسفہ اجتماع،
فلسفہ جذبات،
فلسفیانہ مضامین،
مبادی فلسفہ،
ہم آپ۔
(تراجم)
پیام امن،
تاریخ اخلاق یورپ،
تاریخ تمدن ،
مکالمات برکلے،
مناجات مقبول،
ناموران سائنس۔
(سفر نامے)
تاثرات دکن،
ڈھائی ہفتہ پاکستان میں ، سفر حجاز، سیاحت ماجدی۔
(انگریزی)
دی سائیکلوجی آف لیڈر شپ،
قرآن حکیم(انگریزی ترجمہ و تفسیر)، ہولی قرآن ود انگلش ٹرانسلیشن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ عدیل الرحمان