آج – 18؍جنوری 2011
تاریخ گوئی اور فی البدیہہ میں ملکہ حاصل، ممتاز صاحبِ فکر اساتذہ میں شمار اور مستند شاعر” راغبؔ مراد آبادی صاحب “ کا یومِ وفات…
سیّد اصغر حسین نام اور راغبؔ تخلص ہے۔ ۲۷؍مارچ ۱۹۱۸ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ آبائی وطن مرادآباد ہے۔ بی اے تک تعلیم حاصل کرنے کے علاوہ آپ نے السنہ شرقیہ کے کئی امتحان پاس کیے۔طبیہ کالج، دہلی سے طب کی سند بھی حاصل کی، مگرسرکاری ملازمت کو ذریعۂ معاش بنایا۔تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان آگئے۔ ان کی شعری تربیت میں مولانا ظفر خاں کا ہاتھ ہے۔ انھوں نے جملہ اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ رباعی آپ کی سب سے زیادہ پسندیدہ صنف سخن ہے۔ تاریخ گوئی میں ان کو خاص ملکہ حاصل ہے۔ فی البدیہہ اشعار کہنے میں انھیں یدطولیٰ حاصل ہے۔ ١٨؍جنوری ٢٠١١ء کو راغبؔ مراد آبادی انتقال کر گئے ۔
ان کی تصانیف کے چند نام یہ ہیں:
’ساغر صدرنگ‘، ’عزم و ایثار ‘، ’ضیائے سخن‘، ’رگِ گفتار‘، ’مدحتِ خیر البشر‘، ’مکالماتِ جوش و راغب ‘، ’ہمارا کشمیر‘، ’محنت کی ریت‘، ’بحضور خاتم الانبیا‘ (رباعیات)۔ حکومت پاکستان نے ا ن کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انھیں ’’ تمغۂ حسن کارکردگی ‘‘ سے نوازا۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:88
✨ پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤
معروف شاعر راغبؔ مراد آبادی کے یومِ وفات پر منتخب کلام بطور اظہارِ عقیدت…
عجیب انتشار ہے زمیں سے آسمان تک
غبار ہی غبار ہے زمیں سے آسمان تک
وبائیں قحط زلزلے لپک رہے ہیں پے بہ پے
یہ کس کا اقتدار ہے زمیں سے آسمان تک
بساطِ خاک بھی تپاں خلا بھی ہے دھواں دھواں
بس اک عذابِ نار ہے زمیں سے آسمان تک
گرفت پنجۂ فنا میں خستہ حال و خوں چکاں
حیاتِ مستعار ہے زمیں سے آسمان تک
فغان و اشک و آہ کا جگر گداز سلسلہ
بلطفِ کردگار ہے زمیں سے آسمان تک
متاعِ جبر زندگی ہمیں بھی جس نے کی عطا
اسی کا اختیار ہے زمیں سے آسمان تک
فرازِ عرش کے مکیں شکستہ دل ہمیں نہیں
ہر ایک بے قرار ہے زمیں سے آسمان تک
●━─┄━─┄═•✺❀✺•═┄─━─━━●
حق بات ہی کہیں گے سر دار دیکھنا
اہلِ قلم کی جرأت اظہار دیکھنا
دیکھیں جنہیں ہیں دیر کے دیوار و در عزیز
ہم کو تو صرف سوئے در یار دیکھنا
کرتا رہا قلم یوں ہی شاخیں جو باغباں
ناپید ہوگا سایۂ اشجار دیکھنا
سرکار آپ پر جو چھڑکتے ہیں جان آج
بچ کر چلیں گے کل یہ نمک خوار دیکھنا
بنیاد جس کی ہے ہوس اقتدار پر
ہونے کو ہے وہ قلعہ بھی مسمار دیکھنا
ڈالا جو تم نے ہاتھ کلاہ عوام پر
لگ جائیں گے سروں کے بھی انبار دیکھنا
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
ہٹ جائیں اب یہ شمس و قمر درمیان سے
میری زمیں ملے گی گلے آسمان سے
سینے میں ہیں خلا کے وہ محفوظ آج بھی
جو حرف ادا ہوئے ہیں ہماری زبان سے
وہ میرے ہی قبیلے کا باغی نہ ہو کہیں
اک تیر ادھر کو آیا ہے جس کی کمان سے
صیاد نے کیا ہے اسی کو اسیر دام
طائر جو دل گرفتہ رہا ہے اڑان سے
ناکامیوں نے اور بڑھائے ہیں حوصلے
گزرا ہوں جب کبھی میں کسی امتحان سے
کہلائے جس میں رہ کے ہمیشہ کرایہ دار
کیا انس ہو مکین کو ایسے مکان سے
کیوں پیروی پہ ان کی ہو مائل مرا دماغ
غالبؔ کے ہوں نہ میرؔ کے میں خاندان سے
راغبؔ بہ احتیاط ہی لازم ہے گفتگو
دشمن کو بھی گزند نہ پہنچے زبان سے
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
راغبؔ مراد آبادی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ