آج – 24؍مئی 1918
اپنے شعر ’بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے‘ کے لیے مشہور شاعر” حفیظؔ جونپوری صاحب “ کا یومِ وفات…
حفیظؔ جونپوری نام حافظ محمد علی، حفیظؔ تخلص۔ ۱۸۶۵ء میں جونپور میں پیدا ہوئے۔ بچپن سے شعروسخن کا شوق تھا۔ ۱۸۸۹ء میں جناب وسیم کے شاگرد ہوئے اور انھی کے ایما سے امیرؔ مینائی کے زمرہ تلامذہ میں داخل ہوگئے۔ اگرچہ علمی استعداد زیادہ نہیں تھی مگر کثرت مشق اور خدا داد ذہانت سے اس فن میں اچھی قابلیت حاصل کرلی۔ پہلے سید ظفر حسن خاں، رئیس سولپور کے یہاں کچھ مدت مصاحب رہے۔ اس کے بعد راجا سعادت علی خاں ، رئیس پیغمبر پور کی سرکار میں ملازم رہے۔ ۲۴؍مئی ۱۹۱۸ء کو انتقال کرگئے۔ ان کے دو دیوان شائع ہوگئے ہیں۔
✨ پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
معروف شاعر حفیظؔ جونپوری کے یوم وفات پر منتخب اشعار بطور خراجِ عقیدت…
بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے
—
بہت دور تو کچھ نہیں گھر مرا
چلے آؤ اک دن ٹہلتے ہوئے
—
حسینوں سے فقط صاحب سلامت دور کی اچھی
نہ ان کی دوستی اچھی نہ ان کی دشمنی اچھی
—
تندرستی سے تو بہتر تھی مری بیماری
وہ کبھی پوچھ تو لیتے تھے کہ حال اچھا ہے
—
آپ ہی سے نہ جب رہا مطلب
پھر رقیبوں سے مجھ کو کیا مطلب
—
عاشق کی بے کسی کا تو عالم نہ پوچھیے
مجنوں پہ کیا گزر گئی صحرا گواہ ہے
—
جب نہ تھا ضبط تو کیوں آئے عیادت کے لیے
تم نے کاہے کو مرا حال پریشاں دیکھا
—
یاد آئیں اس کو دیکھ کے اپنی مصیبتیں
روئے ہم آج خوب لپٹ کر رقیب سے
—
جاؤ بھی جگر کیا ہے جو بیداد کرو گے
نالے مرے سن لو گے تو فریاد کرو گے
—
ان کی یہ ضد کہ مرے گھر میں نہ آئے کوئی
اپنی ہی ہٹ کہ مجھے خود ہی بلائے کوئی
—
تمثیل و استعارا و تشبیہ سب درست
اس کی مثال کیا جو عدیم المثال ہو
—
شب وصال لگایا جو ان کو سینے سے
تو ہنس کے بولے الگ بیٹھیے قرینے سے
—
جب ملا کوئی حسیں جان پر آفت آئی
سو جگہ عہد جوانی میں طبیعت آئی
—
قسم نباہ کی کھائی تھی عمر بھر کے لیے
ابھی سے آنکھ چراتے ہو اک نظر کے لیے
—
لٹ گیا وہ ترے کوچے میں دھرا جس نے قدم
اس طرح کی بھی کہیں راہزنی ہوتی ہے
—
جو دیوانوں نے پیمائش کی ہے میدان قیامت کی
فقط دو گز زمیں ٹھہری وہ میرے دشتِ وحشت کی
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
حفیظؔ جونپوری
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ