آج – 20؍جولائی 2017
نقاد، معلم، ماہرِ تعلیم اور مشہور شاعر” حسن اکبر کمالؔ صاحب “ کا یومِ وفات…
نام سیّد اکبر اور تخلص کمالؔ ہے۔ ۱۴؍فروری ۱۹۴۶ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے فوراً بعد ترک وطن کرکے والدین کے ہمراہ پاکستان آگئے۔ ان کے والد اپنی ملازمت کے سبب ملک کے مختلف علاقوں میں رہے۔ اس شہر نوردی سے بقول حسن اکبرکمال انھوں نے بہت کچھ حاصل کیا۔ انگریزی ادب میں ایم اے کیا اور تدریس سے وابستہ ہوگئے۔ گورنمنٹ کالج، رحیم یارخاں ، گورنمنٹ اسلامیہ کالج، سکھر اور گورنمنٹ دہلی کالج، کراچی کے شعبہ انگریزی میں تدریس کے فرائض انجام دیئے۔
حسن اکبر کمالؔ، ٢٠؍جولائی ٢٠١٧ء کو انتقال کر گئے۔
ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:
’ سخن‘، ’خزاں میرا موسم‘ (شعری مجموعے)، ’خوش بو جیسی بات کرو‘ (نظموں اور گیتوں کا مجموعہ)، ’التجا‘ (حمدونعت)، ’کمال کے مضامین‘ (تأثراتی تنقید)، ’رستم خاں‘، ’آدم خوروں کا جزیرہ‘ ۔ بچوں کے لیے چند ناول بھی لکھے۔ ’’خزاں میرا موسم ‘‘ پر آدم جی ادبی انعام ملا۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:383
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
معروف شاعر حسن اکبر کمالؔ کے یومِ وفات پر منتخب کلام بطور خراجِ عقیدت…
غمِ جاں گم غمِ دنیا میں تو ہونا مشکل
ہے سمندر کو سمندر میں سمونا مشکل
نیند جس نے بہت آنکھوں سے اڑا رکھی تھی
یہ ہوا کیا کہ ہوا اس کو بھی سونا مشکل
ہر صفت اپنی کہاں دیتا ہے گل خوشبو کو
خوابِ دل کے مری آواز میں ہونا مشکل
یوں زمیں ذائقۂ خوں سے ہوئی ہے مانوس
اس میں اب فصلِ محبت کی ہے بونا مشکل
کل ہمیں ملنے ہیں جو غم وہ ابھی مل جائیں
آنکھ پتھرائی تو ہو جائے گا رونا مشکل
وقت کو کھیلنے انسان سے دو جی بھر کے
پھر کمالؔ اس کو ہے ملنا یہ کھلونا مشکل
●━─┄━─┄═••═┄─━─━━●
کیا گماں تھا کہ نہ ہوگا کوئی ہمسر اپنا
دن ڈھلے سایہ مقابل ہوا بڑھ کر اپنا
گھر سے نالاں تھے مگر دیکھی ہے دنیا ہم نے
ہے اگر کوئی اماں گاہ تو بس گھر اپنا
درد پہ کیسا شرر بن کے اٹھا پہلو میں
ہم تو یوں خوش تھے کہ دل کر لیا پتھر اپنا
رات بھر کوئی نہ سوئے تو سنے شور فغاں
چاند کو درد سناتا ہے سمندر اپنا
دکھ اٹھائے تو بہت رنگ خود اپنے دیکھے
کم قیامت سے نہ تھا جو بھی تھا منظر اپنا
روز و شب اپنے کسی سے نہیں ملتے ہیں کمالؔ
ہم تو لائے ہیں الگ سب سے مقدر اپنا
▬▬▬▬▬▬ ✪ ▬▬▬▬▬▬
ہنر جو طالبِ زر ہو ہنر نہیں رہتا
محل سرا میں کوئی کوزہ گر نہیں رہتا
بچھڑتے وقت کسی سے ہمیں بھی تھا یہ گماں
کہ زخم کیسا بھی ہو عمر بھر نہیں رہتا
میں اپنے حق کے سوا مانگتا اگر کچھ اور
تو میرے حرف دعا میں اثر نہیں رہتا
کچھ اور بھی گزر اوقات کے وسیلے ہیں
گدا خزینۂ کشکول پر نہیں رہتا
وہ کون ہے جو مسافر کے ساتھ چلتا ہے
خیالِ یار بھی جب ہم سفر نہیں رہتا
جسے بناتے سجاتے ہیں جس میں رہتے ہیں
سویرے آنکھ کھلے تو وہ گھر نہیں رہتا
کھلی فضا نہ رہے یاد اگر پرندوں کو
غم شکستگی بال و پر نہیں رہتا
ہم ایک شب میں کئی خواب دیکھتے ہیں سو اب
وہ آ کے خواب میں بھی رات بھر نہیں رہتا
کمالؔ لوگ بھی کیا ہیں گماں یہ رکھتے ہیں
جو بس گیا ہو کہیں در بدر نہیں رہتا
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
حسن اکبر کمالؔ
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ