آج – 16؍جولائی 1963
قبل از جدید شاعروں میں شامل، روایت اور جدت کے امتزاج کی شاعری کے لیے مشہور شاعر” ادیبؔ سہارنپوری صاحب “ کا یومِ وفات…
نام عبدالرؤف اور تخلص ادیبؔ تھا۔ان کی زندگی کا زیادہ حصہ ریاست اندور میں گزرا۔ اندور میں وہ کوئی چھوٹا سا کاروبار کرتے تھے۔ اس کاروبار سے اتنی آمدنی ہوجاتی تھی کہ گزارہ ہوسکے۔ پاکستان آنے کے بعد وہ شروع شروع میں خاصے پریشان رہے۔ انھیں کموڈور خالد جمیل کی نوازش سے نیوی میں جگہ مل گئی۔ ان کا ترنم بہت اچھا تھا۔فوج کے محکمے میں سالانہ ملازمین کا طبی معائنہ ہوتا ہے۔ادیب سہارن پوری کے پھیپھڑوں میں معمولی سی تکلیف بتائی گئی۔ مرض بڑھتا گیا جو ں جوں دوا کی‘ کے مصداق حالت خراب ہوتی گئی۔ ۱۶؍جولائی ۱۹۶۳ء کو کراچی میں انتقال کرگئے۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:114
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤
ممتاز شاعر ادیبؔ سہارنپوری کے یوم وفات پر منتخب کلام بطور خراجِ عقیدت…
اک خلش کو حاصل عمرِ رواں رہنے دیا
جان کر ہم نے انہیں نامہرباں رہنے دیا
آرزوئے قرب بھی بخشی دلوں کو عشق نے
فاصلہ بھی میرے ان کے درمیاں رہنے دیا
کتنی دیواروں کے سائے ہاتھ پھیلاتے رہے
عشق نے لیکن ہمیں بے خانماں رہنے دیا
اپنے اپنے حوصلے اپنی طلب کی بات ہے
چن لیا ہم نے تمہیں سارا جہاں رہنے دیا
کون اس طرزِ جفاۓ آسماں کی داد دے
باغ سارا پھونک ڈالا آشیاں رہنے دیا
یہ بھی کیا جینے میں جینا ہے بغیر ان کے ادیبؔ
شمع گل کر دی گئی باقی دھواں رہنے دیا
══━━━━✥•••••◈•••••✥━━━━══
بخشے پھر اس نگاہ نے ارماں نئے نئے
محسوس ہو رہے ہیں دل و جاں نئے نئے
یوں قید زندگی نے رکھا مضطرب ہمیں
جیسے ہوئے ہوں داخل زنداں نئے نئے
کس کس سے اس امانت دیں کو بچایئے
ملتے ہیں روز دشمن ایماں نئے نئے
راحت کی جستجو میں خوشی کی تلاش میں
غم پالتی ہے عمر گریزاں نئے نئے
مسجد میں اور ذکر بتوں کا جناب شیخ
شاید ہوئے ہیں آپ مسلماں نئے نئے
دم بھر دم اجل کو نہ حاصل ہوا فراغ
ہوتے رہے چراغِ فروزاں نئے نئے
خانہ خراب ہم سے جہاں میں کہاں ادیبؔ
آباد کر رہے ہیں بیاباں نئے نئے
═══════════════════
ترے نام کی تھی جو روشنی, اسے خود ہی تونے بجھا دیا
نہ جلاسکی جسے دھوپ بھی, اُسے چاندنی نے جلادیا
میں ہوں گردشوں میں گھرا ہوا, مجھے آپ اپنی خبر نہیں
وہ شخص تھا میرا رہنما , اُسے راستوں میں گنوادیا
جسے تو نے سمجھا رقیب تھا , وہی شخص تیرا نصیب تھا
ترے ہاتھ کی وہ لکیر تھا, اسے ہاتھ سے ہی مٹادیا
مری عمر کا ابھی گلستان ,تو کھلا ہوا ضرور پر!
وہ پھول تھے تیری چاہ کے، انہیں موسموں نے گرا دیا
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
ادیبؔ سہارنپوری
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ