آج – 20؍اگست 2013
مشہور پاکستانی شاعر” سعید احمد اختر صاحب “ کا یومِ وفات…
سعید احمد اختر، 3؍مارچ 1933ء کو میں پشین میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق صوبہ سرحد (اب خیبر پختونخواہ) کی تحصیل کُلاچی سے تھا ۔ پشاور یونیورسٹی سے اردو اور انگریزی میں ایم اے کرنے کے بعد آپ پشاور یونیورسٹی میں انگریزی ادب کے پروفیسر رہے۔ 1968 میں سی ایس ایس کرنے کے بعد آپ پاکستان سِول سروس میںشامل ہوئے اور بھر خیبر پختونخواہ کے مختلف اضلاع میں ڈپٹی کمشنر اور ایڈیشنل کمشنر کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ 1990 میں بحیثیت ایڈیشنل کمشنر افغان مہاجرین ریٹائرمنٹ لے کر ڈیرہ اسماعیل خان میں رہائش اختیار کی۔
شاعری آپ کی زندگی ، جیو اور جینے دو آپ کا مسلک اور تعلیمی سوشل ورک آپ کا مشغلہ تھا۔ مختلف یونیورسٹیز کے علاوہ آپ اپنے گھر پر بھی طلباء و طالبات کو فی سبیل اللہ تعلیم کے زیور سے آراستہ کرتے رہے۔ یہ سلسلہ آپ کی وفات سے کچھ ماہ پہلے تک باقاعدگی سے جاری رہا اور آپ کے متعدد شاگرد وطنِ عزیز میں اور بیرونِ ملک آپ کا اور ملک کا نام روشن کرنے میں مصروفِ عمل ہیں۔
سعید احمد اختر، 20؍اگست 2013ء کو ڈیرہ اسماعیل خان میں انتقال کر گئے اور وہیں آسودہ خاک ہیں۔
آپ کی شاعری کے شائع مجموعے درج ذیل ہیں:
دیارِ شب،سطحِآب،چاندنی کے سائے،خوابگینے،لے گئی پَون اُڑا،پتا ٹُوٹا ڈال سے،پوجا کے پھول،ورشانجلی،اب کے بچھڑے کب ملیں،دُور پڑے ہیں جا اورگھونگھٹ کا پٹ کھول ری۔
✨ پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
معروف شاعر سعید احمد اختر کے یوم وفات پر منتخب کلام بطور خراجِ عقیدت…
ہے قحط نہ طوفاں نہ کوئی خوف وبا کا
اس دیس پہ سایہ ہے کسی اور بلا کا
ہر شام سسکتی ہوئی فریاد کی وادی
ہر صبح سلگتا ہوا صحرا ہے صدا کا
اپنا تو نہیں تھا میں کبھی اور غموں نے
مارا مجھے ایسا رہا تیرا نہ خدا کا
پھیلے ہوئے ہر سمت جہاں حرص و ہوس ہوں
پھولے گا پھلے گا وہاں کیا پیڑ وفا کا
ہاتھوں کی لکیریں تجھے کیا سمت دکھائیں
سن وقت کی آواز کو رخ دیکھ ہوا کا
لقمان و مسیحا نے بھی کوشش تو بہت کی
ہوتا ہے اثر اس پہ دعا کا نہ دوا کا
اس بار جو نغمہ تری یادوں سے اٹھا ہے
مشکل ہے کہ پابند ہو الفاظ و صدا کا
اتنی ترے انصاف کی دیکھی ہیں مثالیں
لگتا ہی نہیں ملک ترا ملک خدا کا
سمجھا تھا وہ اندر کہیں پیوست ہے مجھ میں
دیکھا تو مرے ہاتھ میں آنچل تھا صبا کا
❀◐┉══════════┉◐❀
ہر گل سے ہر خار سے الجھا رہتا ہے
دل ہے اپنے یار سے الجھا رہتا ہے
پھول خفا رہتے ہیں اپنی شاخوں سے
در اپنی دیوار سے الجھا رہتا ہے
میری جوانی کا ساتھی مرا آئینہ
چاندی کے ہر تار سے الجھا رہتا ہے
جانے میرا شاعر بیٹا کیوں اکثر
دادا کی تلوار سے الجھا رہتا ہے
لوگ تو آخر لوگ ہیں ان سے کیا شکوہ
عیسیٰ کیوں بیمار سے الجھا رہتا ہے
مورت بنتی ٹوٹتی بنتی رہتی ہے
فن اپنے فن کار سے الجھا رہتا ہے
❀◐┉═════ ✺✺═════┉◐❀
یہ حادثہ بھی تو کچھ کم نہ تھا صبا کے لیے
گلوں نے کس لیے بوسے تری قبا کے لیے
وہاں زمین پر ان کا قدم نہیں پڑتا
یہاں ترستے ہیں ہم لوگ نقش پا کے لیے
تم اپنی زلف بکھیرو کہ آسماں کو بھی
بہانہ چاہئے محشر کے التوا کے لیے
یہ کس نے پیار کی شمعوں کو بد دعا دی ہے
اجاڑ راہوں میں جلتی رہیں سدا کے لیے
ابھی تو آگ سے صحرا پڑے ہیں رستے میں
یہ ٹھنڈکیں ہیں فسانے کی ابتدا کے لیے
سلگ رہا ہے چمن میں بہار کا موسم
کسی حسین کو آواز دو خدا کے لیے
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
سعید احمد اخترؔ
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ