آج – 03؍فروری 1940
پاکستانی شاعرہ، اپنے تانیثی خیالات اور مذہبی کٹرپن کی مخالفت کے لئے مشہور خاتون شاعرہ” کشور ناہیدؔ صاحبہ “ کا یومِ ولادت…
نام کشور ناہید اور تخلص ناہیدؔ ہے۔ ۳؍فروری ۱۹۴۰ء کو بلند شہر(یو۔پی) میں پیدا ہوئیں۔ایم اے (معاشیات) پاس کیا۔محکمہ اطلاعات ونشریات کے ادبی مجلہ’’ماہ نو‘‘ کی چیف اڈیٹر کے منصب پر فائز رہیں۔ بعدازاں پاکستان نیشنل سنٹر ، لاہور کی ریزیڈنٹ ڈائرکٹر رہیں۔ ڈائرکٹر مرکزی اردو سائنس بورڈ، لاہور کے عہدے پر بھی فائز رہیں۔ ا ن کی تصانیف کے چند نا م یہ ہیں:
’’لبِ گویا‘‘ (غزلیات)، ’’بے نام مسافت‘‘ (نظمیں)، ’’گلیاں،دھوپ،دروازے‘‘ (نظمیں، نثری نظمیں ،غزلیں)، ’’فتنہ سامانی دل‘‘، ’’علامتوں کے درمیاں‘‘، ’’سیاہ حاشیے میں گلابی رنگ‘‘، ’’ناوک دشنام‘‘، ’’عورت، خواب اور خاک کے درمیان‘‘، ’’خیالی شخص سے مقابلہ‘‘، ’’بری عورت کی کتھا‘‘ (خودنوشت حالات زندگی)، ’’نازائیدہ بیٹی کے نام‘‘، ’’شناسائیاں، رسوائیاں‘‘ ۔ ’لب گویا‘ پر ۱۹۶۹ء کا آدم جی ادبی انعام ملا۔ حکومت پاکستان نے ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انھیں حسن کارگردگی کے تمغے سے نوازا۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:344
✨ پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
مشہور شاعرہ کشور ناہیدؔ کے یوم ولادت پر منتخب اشعار بطور خراجِ عقیدت…
دل کو بھی غم کا سلیقہ نہ تھا پہلے پہلے
اس کو بھی بھولنا اچھا لگا پہلے پہلے
—
کون جانے کہ اڑتی ہوئی دھوپ بھی
کس طرف کون سی منزلوں میں گئی
—
دل میں ہے ملاقات کی خواہش کی دبی آگ
مہندی لگے ہاتھوں کو چھپا کر کہاں رکھوں
—
ہمیں عزیز ہیں ان بستیوں کی دیواریں
کہ جن کے سائے بھی دیوار بنتے جاتے تھے
—
تجھ سے وعدہ عزیز تر رکھا
وحشتوں کو بھی اپنے گھر رکھا
—
بگڑی بات بنانا مشکل بگڑی بات بنائے کون
کنج تمنا ویرانہ ہے آ کر پھول کھلائے کون
—
زخم بھی تازہ تھا اور اس پہ ہوا بھی تازہ
دل نے رکھا تھا مگر رخش دعا بھی تازہ
—
خوشبو کو رنگتوں پہ ابھرتا ہوا بھی دیکھ
نقش زر بہار چمکتا ہوا بھی دیکھ
—
اے رہ ہجر نو فروز دیکھ کہ ہم ٹھہر گئے
یہ بھی نہیں کہ زندہ ہیں یہ بھی نہیں کہ مر گئے
—
ترے قریب پہنچنے کے ڈھنگ آتے تھے
یہ خود فریب مگر راہ بھول جاتے تھے
—
اپنے لہو سے نام لکھا غیر کا بھی دیکھ
زندہ ہے تو شقاوت دشت بلا بھی دیکھ
—
سنبھل ہی لیں گے مسلسل تباہ ہوں تو سہی
عذابِ زیست میں رشکِ گناہ ہوں تو سہی
—
سلگتی ریت پہ آنکھیں بھی زیر پا رکھنا
نہیں ہے سہل ہوا سے مقابلہ رکھنا
—
آغوش گل میں لذت صحبت نہیں رہی
کس سے کہوں کہ قوس محبت نہیں رہی
—
کچھ بول گفتگو کا سلیقہ نہ بھول جائے
شیشے کے گھر میں تجھ کو بھی رہنا نہ بھول جائے
—
کہانیاں بھی گئیں قصہ خوانیاں بھی گئیں
وفا کے باب کی سب بے زبانیاں بھی گئیں
—
یہ دشت فراموشی ٹھہرنے نہیں دیتا
لیکن در خواہش کو بھی کھلنے نہیں دیتا
—
نہ کوئی ربط بجز خامشی و نفرت کے
ملیں گے اب تو خلاصے یہی محبت کے
—
وداع کرتا ہے دل سطوت رگِ جاں کو
خبر کرو مرے خوابوں کے شبِ سلیماں کو
—
کچھ یوں ہی زرد زرد سی ناہیدؔ آج تھی
کچھ اوڑھنی کا رنگ بھی کھلتا ہوا نہ تھا
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
کشور ناہیدؔ
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ