آج – 02؍جون 1930
مشہور و معروف شاعر ”شہابؔ جعفری صاحب“ کا یومِ ولادت…
نام سید وقار احمد جعفری اور تخلص شہابؔ تھا۔ 02؍جون 1930ء کو بنارس میں پیدا ہوئے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے اور دہلی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ شہاب جعفری خالصہ کالج، دہلی یونیورسٹی، دہلی میں اردو کے استاد تھے۔ انہوں نے بہت کچھ لکھا لیکن وقت اور حالات نے انہیں موقع نہیں دیا کہ وہ اپنے ادبی سرمایوں کو منظر عام پر لاتے۔ اس لیے ان کا صرف ایک ہی مجموعہ کلام ’’سورج کا شہر‘‘ 1967ء میں شائع ہو سکا۔
شہابؔ جعفری کی شاعری کا زمانہ وہ ہے جب ترقی پسند تحریک زوال پزیر تھی اور حلقہ اربابِ ذوق کا رجحان عروج پر تھا۔ شہاب جعفری بھی کچھ برسوں ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے لیکن ان کی شاعری پر ترقی پسندی کا اثر نہیں ہے۔ ان کی شاعری دراصل اس دور کے دونوں مکاتیبِ فکر، ترقی پسندی اور حلقہ اربابِ ذوق کی کشمکش کی پیداوار ہے، جس میں ان دونوں مکاتیبِ فکر کے تصوّرات کی تھرتھراہٹیں موجود ہیں۔
شہابؔ جعفری نے اپنی شاعری کی ابتدا تو غزلوں سے کی لیکن ان کے مجموعہ کلام میں نظمیں، غزلیں، رباعیات کے علاوہ ایک طویل منظوم تمثیلی ڈرامہ بھی ہے۔ انہیں شہرت نظموں کے علاوہ غزلوں کی وجہ سے بھی ملی۔
شاعری کے ساتھ تھیٹر سے بھی وابستہ رہے۔ انہوں نے محمد حسن کے ساتھ لمبے عرصے تک کام کیا۔ شہاب جعفری کا مشہور شعر (تو ادھر ادھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا) بارہا پارلیمنٹ میں پڑھا گیا۔ روایت ہے کہ ایک بار اس شعر کو مولانا ابوالکلام آزاد نے پارلیمنٹ میں جواہر لال نہرو کو سنایا جبکہ اس وقت شہابؔ جعفری کی شاعری اپنے ابتدائی دنوں میں تھی۔ یکم؍فروری 2000ء کو وہ دہلی میں انتقال کر گئے۔
✨ پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤
معروف شاعر شہابؔ جعفری کے یوم ولادت پر منتخب اشعار بطور خراجِ عقیدت…
چلے تو پاؤں کے نیچے کچل گئی کوئی شے
نشے کی جھونک میں دیکھا نہیں کہ دنیا ہے
—
تو ادھر ادھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے رہزنوں سے گلا نہیں تری رہبری کا سوال ہے
—
پاؤں جب سمٹے تو رستے بھی ہوئے تکیہ نشیں
بوریا جب تہ کیا دنیا اٹھا کر لے گئے
—
دل پر وفا کا بوجھ اٹھاتے رہے ہیں ہم
اپنا ہر امتیاز مٹاتے رہے ہیں ہم
—
زندگی تو بھی کوئی موج بلا کیوں نہ سہی
ایک ہی بار مرے سر سے گزرتی بھی نہیں
—
دل دکھوں کی خاک پر کی شب نشینی ماہ نے
دن کبھی نکلا تو اک سورج سر مدفن جلا
—
شام رکھتی ہے بہت درد سے بیتاب مجھے
لے کے چھپ جا کہیں اے آرزوئے خواب مجھے
—
رتبۂ درد کو جب اپنا ہنر پہنچے گا
ہم نشیں ضبط سخن کا بھی اثر پہنچے گا
—
قدم زمیں سے جدا ہیں نظر مناظر سے
غریب شہر کو شہر آسماں دکھائی دے
—
ہوس زلف گرہ گیر لیے بیٹھے ہیں
آیتِ شوق کی تفسیر لیے بیٹھے ہیں
—
تیری دستک تھی کہ سناٹا وہی ہر شام کا
رہرو کوہ ندا ہیں گھر کے بام و در میں ہم
—
میں ہی میں بکھرا ہوا ہوں راہ تا منزل تمام
خاکداں تا آسماں چھایا ہے مستقبل تمام
—
ہجر و وصالِ یار کا موسم نکل گیا
اے دردِ عشق جاگ زمانہ بدل گیا
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
شہبابؔ جعفری
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ