آج – 7؍جولائی 1964
نثر نگار، صحافی اور مشہور و معروف شاعر” ماجدؔ دیوبندی صاحب “ کا یومِ ولادت…
نام ماجد صدیقی، تخلص ماجدؔ دیوبندی ہے۔ وہ ٧؍جولائی ١٩٦٤ء کو دیوبند، بھارت میں پیدا ہوئے۔
ان کے والد اردو فارسی کی اعلیٰ صلاحیت رکھتے تھے۔گھر کے ماحول اور والد کی وجہ سے وہ اردو کی طرف راغب ہوئے۔ ہائی اسکول سے لے کر پی۔ ایچ۔ ڈی تک اول نمبروں سے کامیابی حاصل کیں۔
تقریباً 18 سال انھوں نے آل انڈیا ریڈیو، دہلی میں بحیثیت اناؤنسر کام کیا۔ عرصہ دراز تک دور درشن (انڈین ٹیلی ویژن) دہلی میں اردو خبریں پڑھ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے ٹی۔ وی چینلوں میں بحیثیت شاعر ان کی تخلیقات نشر ہوتی رہتی ہیں۔
شعری مجموعے : غزل کے دو شعری مجموعے ’’ لہو لہو آنکھیں ‘‘ اور ’’ شاخِ دل‘‘ کے علاوہ دو شعری مجموعے ہندی میں شائع ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک نعتوں کا مجموعہ ’’ذکرِ رسول‘‘ شائع ہو کر عوام میں مقبول ہو چکا ہے۔ نثر میں ان کی ایک بہت اہم کتاب ’’خواجہ حسن نظامی: ایک تحقیقی مطالعہ‘‘ بھی شائع ہو کر ادبی حلقوں میں داد و تحسین حاصل کر چکی ہے۔ ایک نثر کی کتاب ’’میری تحریریں‘‘ شائع ہو کر منظر عام پر آچکی ہے۔ اس میں ادب کے مشاہیر پر ان کی شخصیت ،شاعری اور تنقیدی مضامین شامل ہیں۔ تازہ شعری مجموعہ ’’جگنو بولتا ہے‘‘ بھی جلد شائع ہونے والا ہے۔
نعت کی تازہ کتاب ’’ وہ میرا نبی ہے‘‘ جلد شائع ہونے والی ہے۔ سابق وزیر اعظم اندر کمار گجرال بھی ماجدؔ دیوبندی کو اُن کی ادبی خدمات کے اعتراف میں اعزاز سے نواز چکے ہیں۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
══━━━━✥•••••◈•••••✥━━━━══
معروف شاعر ماجدؔ دیوبندی کے یوم ولادت پر منتخب کلام بطور خراجِ تحسین…
آسماں کی رفعتوں سے طرزِ یاری سیکھ لو
سر اٹھا کر چلنے والو خاکساری سیکھ لو
پیش خیمہ ہیں تنزل کا تکبر اور غرور
مرتبہ چاہو تو پہلے انکساری سیکھ لو
خود بدل جائے گا نفرت کی فضاؤں کا مزاج
پیار کی خوشبو لٹاؤ مشکباری سیکھ لو
چن لو قرطاس و قلم یا تیغ کر لو انتخاب
کوئی فن اپناؤ لیکن شاہکاری سیکھ لو
پھر تمہارے پاؤں چھونے خود بلندی آئے گی
سب دلوں پر راج کر کے تاج داری سیکھ لو
عشق کا میدان آساں تو نہیں ہے محترم
عشق کرنا ہی اگر ہے غم شعاری سیکھ لو
جس شجر کی چھاؤں ہو ماجدؔ زمانے کے لئے
کیسے ہوگی اس شجر کی آبیاری سیکھ لو
═══════════════════
نہ کچھ زیادہ نہ کچھ کم ترے حوالے سے
وہی ہے درد کا عالم ترے حوالے سے
کھلے جو زخم کے ٹانکے تو یہ ہوا محسوس
صبا نے رکھ دیا مرہم ترے حوالے سے
وہی ہے دل کا تڑپنا وہی ہے کیفیت
وہی مزاج ہے پیہم ترے حوالے سے
چلی ہے ہجر کے موسم میں جب بھی پروائی
ہوئی ہے آنکھ مری نم ترے حوالے سے
خزاں کا ذکر تو میری زباں پہ تھا ہی نہیں
بہار کرتی ہے ماتم ترے حوالے سے
مری حیات تھی خوشیوں سے ہم کنار مگر
ہوئے ہیں درد منظم ترے حوالے سے
ترا حوالہ دیا تھا کہ یک بیک ماجدؔ
زمانہ ہو گیا برہم ترے حوالے سے
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
ماجدؔ دیوبندی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ