آج – 25؍اپریل 1991
مشہور و معروف شاعر” میکشؔ اکبر آبادی صاحب “ کا یومِ ولادت…
میکشؔ اکبرآبادی نام سیّد محمد علی شاہ، تخلص میکشؔ۔ ۳؍مارچ ۱۹۰۲ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ درس نظامیہ کی تکمیل مدرسہ عالیہ آگرہ سے کی۔ ان کا مشغلہ تصنیف وتالیف رہا۔ ۲۵؍اپریل ۱۹۹۱ء کو آگرہ میں انتقال کرگئے۔ ان کی تصانیف اور تالیفات کے نام یہ ہیں:
’مے کدہ‘، ’حرف تمنا‘ (شعری مجموعے)، ’نغمہ اور اسلام‘ (جواز سمع)، ’نقد اقبال‘ (تنقید)، ’شرک و توحید ‘ (مذہب)، ’حضرت غوث الاعظم‘ (مذہب)، ’مسائل تصوف‘ (ادب)۔ ’’حرف تمنا‘‘ ،’’نقد اقبال‘‘ اور ’’مسائل تصوف‘‘ پر اترپردیش اردو اکادمی کی طرف سے انعامات ملے۔ وہ شاعر کے علاوہ نقاد اور ماہر اقبالیات وتصوف تھے۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد اول)،محمد شمس الحق،صفحہ:367
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
معروف شاعر میکشؔ اکبر آبادی کے یومِ وفات پر منتخب کلام بطورِ خراجِ عقیدت…
مرے غم کے لیے اس بزم میں فرصت کہاں پیدا
یہاں تو ہو رہی ہے داستاں سے داستاں پیدا
وہی ہے ایک مستی سی وہاں نظروں میں یاں دل میں
وہی ہے ایک شورش ہی وہاں پنہاں یہاں پیدا
تو اپنا کارواں لے چل نہ کر غم میرے ذروں کا
انہیں ذروں سے ہو جائے گا پھر سے کارواں پیدا
مری عمریں سمٹ آئی ہیں ان کے ایک لمحے میں
بڑی مدت میں ہوتی ہے یہ عمرِ جاوداں پیدا
ذرا تم نے نظر پھیری کہ جیسے کچھ نہ تھا دل میں
ذرا تم مسکرائے ہو گیا پھر اک جہاں پیدا
ہماری سخت جانی سے ہوا شل ہاتھ قاتل کا
سر مقتل ہی ہم نے کر لیا دارالاماں پیدا
توقع ہے کہ بدلے گا زمانہ لیکن اے میکشؔ
زمانہ ہے یہی تو ہو چکے انساں یہاں پیدا
══━━━━✥•••◈•••✥━━━━══
یہ رنگ و نور بھلا کب کسی کے ہاتھ آئے
کدھر چلے ہیں اندھیرے یہ ہاتھ پھیلائے
خدا کرے کوئی شمعیں لیے چلا آئے
دھڑک رہے ہیں مرے دل میں شام کے سائے
کہاں وہ اور کہاں میری پر خطر راہیں
مگر وہ پھر بھی مرے ساتھ دور تک آئے
میں اپنے عہد میں شمع مزار ہو کے رہا
کبھی نہ دیکھ سکے مجھ کو میرے ہم سایے
چلے چلو کہ بتا دے گی راہ خود رستے
کہاں ہے وقت کہ کوئی کسی کو سمجھائے
حرم کی آبرو ہم نے بہت رکھی پھر بھی
کئی چراغ صنم خانے میں جلا آئے
میں اپنے دل کو تو تسکین دے بھی لوں میکشؔ
وہ مضطرب ہے بہت کون اس کو سمجھائے
═══════════════════
یہ مانا زندگی میں غم بہت ہیں
ہنسے بھی زندگی میں ہم بہت ہیں
تری زلفوں کو کیا سلجھاؤں اے دوست
مری راہوں میں پیچ و خم بہت ہیں
نہیں ہے منحصر کچھ فصل گل پر
جنوں کے اور بھی موسم بہت ہیں
غبار آلودہ چہروں پر نہ جانا
انہیں میں کیقباد و جم بہت ہیں
مجھے کچھ ساز ہے نشتر سے ورنہ
مرے زخموں کے یاں مرہم بہت ہیں
قفس یہ جان کر توڑا تھا میں نے
قفس کو توڑ کر بھی غم بہت ہیں
کروں کیا چارہ ان آنکھوں کا میکشؔ
کہ ان کے سامنے پر نم بہت ہیں
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
میکشؔ اکبر آبادی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ