اردو کی خواتین افسانہ نگاروں میں خدیجہ مستور کا نام بے حد اہمیت کا حامل ہے ۔ یوں تو ان کے ناولوں اور افسانوی مجموعوں کی تعداد سات ہے ۔ مگر ان کا ناول ’ آنگن ہی اس قدر توانا ثابت ہواکہ اس نے ان کے نام کو زندہ جاوید کر دیا ۔ نہ صرف یہ کہ یہ ناول ہمیشہ اردو ادب میں زندہ رہے گا بلکہ اس کے خالق کی حیثیت سے خدیجہ مستور کا نام بھی اردو ادب میں اپنا مقام بنا چکا ہے ۔
برصغیر پاک وہند کی تقسیم پر متعدد اردو ناول لکھے گئے جن میں ’ آگ کا دریا ( قرة العین حیدر ) ، اداس نسلیں (عبد اللہ حسین ) اور ’آنگن ( خدیجہ مستور ) بہت ہی اہمیت کی حامل ہیں ۔ ان میں تقسیم کی نہ صرف تاریخ مل جاتی ہے بلکہ اس دور کا جیتا جاگتا معاشرہ بھی نظر آتا ہے ۔ اس نسل کو جو المیہ پیش آیا اس کا درد و کرب تو ملتا ہی ہے ساتھ ساتھ اس نے پورے معاشرے کو اپنی آغوش میں لے لیا ہے ۔
خدیجہ مستور کی پیدائش 11 دسمبر سنہ 1928 کو اتر پردیش کے لکھنؤ کے ایک متوسط خاندان میں ہوئی تھی ۔ انہوں نے ابتدائی اور اعلیٰ تعلیم لکھنؤ میں ہی حاصل کی تھی ۔ کچھ عرصہ ان کا قیام بمبئی میں بھی رہا لیکن تقسیم ملک کے بعد ان کا خاندان لاہور چلا گیا ۔ انہوں نے کم عمری میں ہی کہانیاں لکھنی شروع کر دی تھی اور ممبئی کے دوران قیام ان کے فن کو جلا حاصل ہوئی ۔ لیکن ان کی اصل تخلیقات لاہور کے قیام کی دین ہیں ۔ خدیجہ مستور اور ان کی افسانہ نگار بہن حاجرہ مسرور کو احمد ندیم قاسمی جیسی شخصیت کی سرپرستی حاصل ہوئی احمد ندیم قاسمی نے اپنی منہ بولی بہنوں کی شادی میں ذرا دیر نہیں لگائی۔ خدیجہ مستور کو انھوں نے اپنے بھانجے ظہیر بابر سے بیاہا اور احمد علی خان سے ہاجرہ مسرور کی شادی ہوئی۔ ان کی بہن طاہرہ معروف صحافی حسن عابدی سے بیاہی گئیں۔۔ اس کے بعد تو وہ مسلسل لکھتی رہیں اور ان کی کہانیاں بھارت اور پاکستان کے مقتدر ادبی رسائل میں شائع ہوئیں ۔ انہوں نے بہت جلد نمایاں ادبی مقام حاصل کر لیا ۔ ان کا افسانہ” محافظ الملک“ بے حد مشہور ہوا جو ایک خاص دور کی عکاسی کرتا ہے ۔ ان کے مشہور افسانوں میں ’ تلاش گمشدہ ، درد ، کھیل ، بوچھار ، چند روز ‘ کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا اور ناقدین نے خاص طور پر ان کا ذکر کیا ۔
ان کے ناول آنگن ، تھکے ہارے ، چند روز، زمین ، کھیل ، ٹھنڈا میٹھا پانی اور بوچھا ڑ نے بھی ان کی مقبولیت میں چار چاند لگائے ۔’ آنگن ‘ پر انہیں پاکستان کا سب سے بڑا ادبی انعام ’ آدم جی پرائز ‘ بھی ملا ۔ اس ناول میں خدیجہ مستور کا فن اپنے عروج پرنظرآتا ہے ۔ انہوں نے کئی سماجی ، تہذیبی ، معاشرتی ، سیاسی اور معاشی تحریکوں کاجائزہ لیا ہے اور ان کا ماہرانہ تجزیہ پیش کیا ہے ۔ اس ناول کے بعد ہی ان کا شما رایک سنجیدہ اور گہری سوچ رکھنے والی تخلیق کار کی حیثیت سے ہونے لگا تھا کیونکہ ’ آنگن ‘ صرف ایک گھر کا آنگن نہیں پورے معاشرے کا آنگن ہے جس کا پر تو ہر دور میں نظر آتا ہے ۔
26 جولائی سنہ 1982 کو اردو اس کی عظیم ناول نگار کا لاہور میں انتقال ہو گیا لیکن ان کی لافانی تخلیقات آج بھی ان کی یاد دلاتی ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ خالد محمود