آج – 27؍جنوری 2021
جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے شعبہ اُردو کے سابق صدر مشہور نقاد، محقق اور شاعر ”پروفیسر حنیف کیفیؔ صاحب“ کا یومِ وفات….
نام #محمد_حنیف_قریشی اور تخلص #کیفیؔ تھا۔
08؍ستمبر 1934ء کو حاجی حشمت ﷲ صاحب کے یہاں بریلی (روہیل کھنڈ، یوپی) میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم میونسپل پرائمری اسکول، بانس منڈی، بریلی سے حاصل کی، جبکہ 1944ء میں چوتھی جماعت کا امتحان پاس کیا۔ ثانوی تعلیم آزاد ہائر سیکنڈری اسکول (موجودہ آزاد انٹرکالج)، بریلی سے حاصل کی، حنیف کیفیؔ نے بریلی کے ہائی اسکول سے 1952ء میں امتیاز کے ساتھ پاس کیا۔ 1954ء میں انٹرمیجیئٹ (سائنس)، 1956ء میں بی اے اور 1958ء میں آگرہ یونیورسٹی سے انگریزی لٹریچر میں ایم۔ اے کی ڈگری حاصل کی تھی۔ کیفی صاحب صوبہ مدھیہ پردیش کے ضلع سرگوجا کے ایک قصبے میں انگریزی زبان کے لکچرر کی حیثیت سے 05؍دسمبر 1961ء کو مامور ہوئے اور 08؍مارچ 1972ء کو انھوں نے اس ملازمت کو خیرباد کہہ دیا۔ ملازمت کے دوران ہی وکرم یونیورسٹی، اجین، مدھیہ پردیش سے 1968ء میں ایم۔ اے (اردو) کی ڈگری فرسٹ ڈویژن، سیکنڈ پوزیشن میں حاصل کی۔ پھر ترقی کے مدارج طے کرتے ہوئے مارچ 1972ء میں جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی میں اردو کے لکچرر کی حیثیت سے ان کا تقرر ہوا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ملازمت کے دوران ہی پروفیسر گوپی چند نارنگ کی نگرانی میں ’اردو میں نظم معرا اور آزاد نظم (ابتدا سے 1947ء تک)، کے موضوع پر 1980ء میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ پھر یکم؍جنوری 1983ء کو ریڈر بن گئے اور 30؍جون 1988ء کو پروفیسر اور پھر شعبۂ اردو کے صدر کی ذمے داریاں نبھاتے ہوئے 08؍ستمبر 1999ء کو جامعہ سے سبکدوش ہوئے۔
حنیف کیفیؔ صاحب کی تصنیفات و تالیفات کی فہرست طویل نہ سہی مگر ان کی جتنی بھی کتابیں ہیں وہ قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں اور آئندہ بھی ان کی پذیرائی ہوتی رہے گی کیونکہ ان کی بعض کتابیں حوالہ جاتی حیثیت کی حامل ہیں۔
کیفیؔ صاحب کی مطبوعات کی فہرست حسب ذیل ہے: 👇
(1) اردو شاعری میں سانٹ (تحقیق و تنقید) 1975ء
(2) اردو میں نظم معراا ور آزاد نظم (ابتدا سے 1947ء تک) (تحقیق و تنقید) 1982ء
(3) جے شنکر پرساد (سوانح و تنقید: انگریزی سے ترجمہ) 1984ء
(4) چراغ نیم شب (شاعری) 1986ء
(5) اردو کی نئی کتاب (گیارہویں جماعت کے لیے)، 1986ء
(6) اردو کی نئی کتاب (بارہویں جماعت کے لیے) 1988ء
(7) اردو سانٹ: تعارف و انتخاب (تحقیق و تدوین) 1987ء
(8) تنقید و توجیہ (مضامین) 1997ء
(9) انتخاب کلام شمیم کرہانی (ترتیب) 1999ء
(10)سحر سے پہلے (شاعری)، 2004ء
(11)بائیں ہاتھ کا کھیل (شاعری) 2011ء
(12)بچپن زندہ ہے مجھ میں (بچوں کے لیے)2018ء
(13)صبح کی دہلیز پر (شاعری) 2021ء وغیرہ۔
کیفی صاحب نے اپنے ادبی سفر کا آغاز 1951ء میں شاعری سے کیا جب وہ نویں جماعت میں زیر تعلیم تھے۔ ان کی خاص دلچسپی شاعری سے تھی، مگر ان کے استاد عشرت صاحب کی خواہش تھی کہ وہ مضامین بھی لکھیں، چنانچہ انھوں نے کیفیؔ صاحب سے ’خوش اخلاقی‘ اور ’میرا بہترین مشغلہ‘ عنوانات کے تحت مضمون لکھنے کو کہا، اس وقت کیفیؔ صاحب نویں کلاس میں تھے۔ بہرحال کیفی صاحب نے استاد کے حکم کی تعمیل کی اور عشرت صاحب نے ان مضامین کو پڑھ کر کیفی صاحب کو داد و تحسین سے نوازا۔ کیفی صاحب کے بقول عشرت صاحب نے ان سے مزید مضامین تحریرکرنے کو کہا۔
24؍جنوری کو انہیں ہولی فیملی ہاسپٹل، دہلی کے آئی سی یو میں داخل کرایا گیا تھا جہاں وہ جاں بر نہ ہوسکے اور 27؍جنوری 2021ء کو صبح ساڑھے دس بجے داعی اجل کو لبیک کہا۔
👈 #بحوالہ_قندیل_آنلائن_ڈاٹ_کام
✨🌹 پیشکش : شمیم ریاض
🛑🚥💠➖➖🎊➖➖💠🚥🛑
💫🍁 معروف شاعر حنیف کیفیؔ صاحب کے یومِ وفات پر منتخب کلام بطور خراجِ عقیدت…..🍁💫
کی نظر میں نے جب احساس کے آئینے میں
اپنا دل پایا دھڑکتا ہوا ہر سینے میں
مدتیں گزریں ملاقات ہوئی تھی تم سے
پھر کوئی اور نہ آیا نظر آئینے میں
اپنے کاندھوں پہ لیے پھرتا ہوں اپنی ہی صلیب
خود مری موت کا ماتم ہے مرے جینے میں
اپنے انداز سے اندازہ لگایا سب نے
مجھ کو یاروں نے غلط کر لیا تخمینے میں
اپنی جانب نہیں اب لوٹنا ممکن میرا
ڈھل گیا ہوں میں سراپا ترے آئینے میں
ایک لمحے کو ہی آ جائے میسر کیفیؔ
وہ نظر جو مجھے دیکھے مرے آئینے میں
🛑🚥💠➖➖🎊➖➖💠🚥🛑
ہر اک کمال کو دیکھا جو ہم نے رو بہ زوال
سسک کے رہ گئی سینے میں آرزوئے کمال
ہم اپنی ڈوبتی قدروں کے ساتھ ڈوب گئے
ملے گی اب تو کتابوں میں بس ہماری مثال
ہوئے انا کے دکھاوے سے لوگ سر افراز
انا نے سر کو اٹھا کر کیا ہمیں پامال
ذرا سی عمر میں کس کس کا حل تلاش کریں
کھڑے ہیں راستہ روکے ہوئے ہزار سوال
مرے خلوص کا یاروں نے آسرا لے کر
کیا ہے خوب مری دوستی کا استحصال
بجھا بجھا سا یہی دل ہے اس شباب کی راکھ
رگوں میں دوڑ رہی تھی جو آتش سیال
ملے وہ لمحہ جسے اپنا کہہ سکیں کیفیؔ
گزر رہے ہیں اسی جستجو میں ماہ و سال
🛑🚥💠➖➖🎊➖➖💠🚥🛑
بکھر کے ریت ہوئے ہیں وہ خواب دیکھے ہیں
مری نگاہ نے کتنے سراب دیکھے ہیں
سحر کہیں تو کہیں کیسے اپنی صبحوں کو
کہ رات اگلتے ہوئے آفتاب دیکھے ہیں
کوئی بھی رت ہو ملی ہے دکھوں کی فصل ہمیں
جو موسم آیا ہے اس کے عتاب دیکھے ہیں
میں بد گمان نہیں ہوں مگر کتابوں میں
تمہارے نام کئی انتساب دیکھے ہیں
کبھی کی رک گئی بارش گزر چکا سیلاب
کئی گھر اب بھی مگر زیر آب دیکھے ہیں
کوئی ہماری غزل بھی ملاحظہ کرنا
تمہارے ہم نے کئی انتخاب دیکھے ہیں
پناہ ڈھونڈتے گزری ہے زندگی کیفیؔ
جھلستی دھوپ میں سائے کے خواب دیکھے ہیں
👈 #بشکریہ_ریختہ_ڈاٹ_کام
💠♦️🔹➖➖🎊➖➖🔹♦️💠
🌹 حنیف کیفیؔ 🌹
✍️ انتخاب : شمیم ریاض
Shameem Riyaz