فیض الحسن فضا ابن فیضی یکم جولائی 1923ء میں شعر و صنعت کے شہر مئو کے ایک علمی خانوادے میں پیدا ہوۓ۔
فضا کے دادا مولانا ابو المعالی محمد علی فیضی اپنے دور کے مشہور عالم دین،شعر و ادب کے دلدادہ اور صاحب تصانیف بزرگ تھے۔ علامہ سید نذر حسین دہلوی کے شاگرد تھے۔ بنگال و بہار میں ان کی دعوتی خدمات کے مثبت اثرات کا اعتراف اہل علم آج بھی کرتے ہیں۔
فضا کے والد مولانا ابو الفیض منظور حسن بھی اسلامی علوم کے فاضل تھے لیکن انہوں نے تدریس کی بجاۓ تجارت کو اپنا شعار بنایا اور علم و ادب سے بھی رشتہ استوار رکھا۔
فضا نے اپنے اس علمی و ادبی بس منظر کا اعتراف نہایت خوبصورت انداز میں کیا ہے
اکثر غور کرتا ہوں کہ میں ایسے درخت کی شاخ ہوں جس کی جڑیں علم و ادب کے عناصر نشو نمو سے پورے طور پر آسودہ رہی ہیں۔علوم عقلیہ و نقلیہ کے علاوہ شعر و ادب کا خمیر بھی مبداء فیاض نے ان میں شامل کر دیا ہے۔
فضا نے ابتدائی تعلیم جامعہ عالیہ عربیہ (مئو) سے حاصل کی تکمیل و فراغت کے مرحلے جامعہ اسلامیہ فیض عام (مئو) میں طے کۓ۔
مولانا محمد سلیمان، مولانا محمد احمد،مولانا عبداللہ شائق اور مولانا عبدالرحمٰن جیسے ثقہ اور باصلاحیت عما ان کے اساتذہ تھے۔ جن میں بعض اسلامی علوم پر دسترس رکھنے کے ساتھ شعر و ادب کا بھی ذوق رکھتے تھے۔
فضا کی پوری تعلیم روایتی طرز کی ہوئی تھی۔انہوں نے انگریزی زبان سیکھنے کی کوشش کی مگر بات نہیں بنی۔ تعلیم کے بعد تجارت میں والد صاحب کا ہاتھ بٹایا۔
فضا نے شاعری کا آغاز مدرسہ عالیہ کی ابتدائی جماعتوں میں تعلیم کے دوران کیا۔
ان کی پہلی نظم "زمزم" لاہور میں 1940ء میں شائع ہوئی۔
فضا کا پہلا شعری مجموعہ "سفینہء زرگل" 1973ء میں شائع ہوا۔
غزلیات و رباعیات پر مشتمل اس مجموعے کو اردو دنیا کے معتبر ناقدین نے سراہا۔
دوسرا شعری مجوعہ"شعلہءنیم ساز"(منظومات) 1978ء میں منظر عام پہ آیا۔
یہ مجموعہ مختلف قسم کی نظموں پہ مشتمل ہے۔
"دریچہ سیم سمن"(غزلیات)1989ء میں شائع ہوا۔
سر شاخ طوبٰی (حمد و نعت و منظومات،ترانے) فضا کے تخلیقی سفر کے چوتھی منزل تھی۔جس کو 1990ء میں جامع سلفیہ،بنارس نے نہایت اہتمام سے شائع کیا تھا۔
"پس دیوار حرف"(غزلیات) 1991ء میں شائع ہوا۔
"سبزہ معنی بیگانہ" (غزلیات 1994ء میں منظر عام پہ آیا۔
فضا کی خدمات کے اعتراف میں مختلف ادبی اداروں نے ان کو انعامات و اعزازات سے نوازا تھا۔:
سفینہ زرگل" پر اتر پردیش اردو اکاڈمی لکنھو اور انجمن عروج ادب دہلی سے انعام ملا،
"شعلہءنیم سوز" اتر پردیش اردو اکیڈمی لکھنو اور بہا اردو اکیڈمی پٹنہ سے انعام یافتہ ہے۔
مجموعی ادبی خدمات پر 1989ء میں یوپی اردو اکیڈمی لکھنو کی طرف سے خصوصی انعام ملا۔
آل انڈیا میر اکیڈمی کے علاوہ غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی کے غالب انعام 2000ء(براۓ شاعری) سے بھی ان کو نوازا گیا تھا۔
مکتبہ دین و ادب لکھنو نے مارچ 1975ء مین فضا ابن فیضی منایا اور "پیکر دانش" کے نام سے طلائی تمغہ اور سند توصیف عطا کی۔
سر اقبال پبلک سکول مئو کی جانب سے مارچ 2001ء جشن فضا ابن فیضی اکیڈمی مئو۔عبدالجبار فریوائی اکیڈمی،پرتاب گڑھ اور 2004ء جشن فضا میں مرکزی جیعت اہلحدیث کی جانب سے بھی انعامات سے نوازا گیا۔
1991ء میں سہ ماہی توازن مالیگاؤں (مدیر و مرتب عتیق احمد عتیق) نے فضا ابن فیضی نمبر(حصہ اول) شائع کیا۔
296 صفحات پر مشتمل اس خاص شمارے میں برصغیر پاک و ہند کے اکثر معروف اور معتبر نقادوں نے فضا کی شاعری کے مختلف جہات پر اہم مقالے لکھے۔
بنارس ہندو یونیورسٹی نے ڈاکٹر شفیع احمد کو فضا ابن فیضی کی شاعری پر پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی۔ان کا مقالہ 2001 میں فضا ابن فیضی اور شخصیت کے نام سے شائع ہوا۔
ڈاکٹر حدیث انصاری نے فضا ابن فیضی کی شخصیت اور فن پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ان کی کتاب 2007ء میں شائع ہو چکی ہے۔
فضا نے غزل،نظم اور رباعی تینوں اصناف سخن سخن میں لکھا ہے اور خوب لکھا ہے،کم و کیف دونوں لحاظ سے ان کا کلام اردو شاعری میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔
17 جنوری 2009 کو فضا ابن فیضی اپنے وطن مئو میں انتقال کر گۓ تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سر شاخ طوبٰی سے منتخب کلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہوَالظاہرُوِالبَاطِن
موسم کی سوغات لٹانے والا تو
شاخ حرا میں پھول کھلانے والا تو
تجھ سے،بارآرد، سب کا نخلِ امید
پلکوں پلکوں خواب سجانے والا تو
شام سحر،رنگ اور نمو، خوشبو کا سفر
منظر منظر،رنگ جمانے والا تو
تاننے والا چادر ٹھنڈے ساۓ کی
دھوپ کا اجلا فرش بچھانے والا تو
مٹی کو،امکاں کا شرف دینے والا
آگ کو ، خلدِ سبز بنانے والا تو
جز کو، اپنے کُل میں ضم کرنے والا
قطرے کو،دریا سے ملانے والا تو
جلوے تیرے، شمع،شگوفے اور شفق
خاکِ شب سے،چاندا گانے والا تو
شیشے کو، جوہر کی نظر دینے والا
پتھر میں، احساس جگانے والا تو
ہستی سے تانیستی،سب تیری جاگیر
نقش بنانے،نقش مٹانے والا تو
موجود و معدوم کہ امکاں، لا امکاں
شمعِ ہست و بود جلانے والا تو
یوسف کوشی ہو،کہ زلیخا آسائی
آینوں کو، عکس دکھانے والا تو
تیرا کرشمہ،زود عصاے دستِ کلیم
پانی میں ،دیوار اٹھانے والا تو
ہم سب کو، ادراک کی دولت دی تو نے
پھر بھی،کب ہے عقل میں آنے والا تو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ
کعبَہ اسی کا،اور حرا بھی اسی کا ہے
میرے لبوں پہ، حرفِ دعا بھی اسی کا ہے
ہے موج اسی کی،نشہء میخانہء ازل
جامِ خضر میں، آب بقا بھی اسی کا ہے
خرمن اسی کا ہیں،مہہ و ناہید و کہکشاں
گنجینہء گلاب و حنا بھی اسی کا ہے
عالم تمام، اسی کی مشیت سے رنگ رنگ
یہ روزگار ابرو ہوا بھی اسی کا ہے
کشتِ عدم بھی اسن کی، بہارِ وجود بھی
میزاں قضا و قدر کی ہے،بس اس کی ذات
پیمانہء سزا و جزا بھی اسی کا ہے
اک امتحان تھی۔ دستِ زلیخا کی عشوگی
یوسف ہیں خوش، کہ چاکِ قبا بھی اسی کا ہے
روشن، چراغ مصطفٰی میں، اسی کا ہنوز
دستِ پیمبری میں عصا بھی اسی کا ہے
ہے باثمر اسی سے، مری سعیِ رائگاں
یہ مردہ۔وہ صفا، یہ منٰی بھی اسی کا ہے
آہو، اسی کے دشت کے،ایوبؑ اورخلیلؑ
یہ کاروبارِ صبر و رضا بھی اسی کا ہے
تمجید ہیں اسی کی، مرے دل کی دھڑکنیں
لوحِ نفس پہ نقشِ صدا بھی اسی کا ہے
میرے ہنر کا یہ چم و خم ہے،اسی کا فیض
یہ میرے پاس،رختِ نوا بھی اسی کا ہے
مشکل تھی ورنہ۔معنی و مفہوم کی نمود
یہ خامہء طلسم کشا بھی اسی کا ہے
امکان و عرش کب تھے تہِ شہپرِ خیال
یوں ہے،کہ میرے فن کا انا بھی اسی کا ہے
یہ اور بات ہے،کہ ہے سرگشتہء و خراب
اتنا تو کم نہیں،کہ فضاؔ بھی اسی کا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سفینہ زر گل سے منتخب کلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دادِ فن بھی نہ ملی،عرضِ ہنر سے بھی گیا
اپنی تہ میں جو نہ اترا وہ گہر سے بھی گیا
سورج ابھرا تو سیہ پڑ گۓ چہرے کتنے
روشنی کا جو تصور تھا سحر سے بھی گیا
پرسکوں اپنے آپ کو رکھتا ہوں سمندر کی طرح
ورنہ طوفاں تو گذر کے مرے سر سے بھی گیا
تو بھی اب میرے لۓ کچھ دن آوارہ بھٹک
جستجو میں تری میں اپنی خبر سے بھی گیا
ہم گھنے شہروں میں رہ کر بھی کھلی دھوپ میں ہیں
ٹھنڈے سایوں کا دردبست شجر سے بھی گیا
تو لہو بن کے رگ و ہے میں چھلک جسم میں دوڑ
ڈھل گیا اشک میں جو، دیدہء تر سے بھی گیا
ملتا رہتا ہوں رقیبوں سے کہ ہمصر ہیں وہ
میں ترے گھر تو کئی بار ادھر سے بھی گیا
تیری ہستی ہے گلستاں میں ہوا کا جھونکا
تو جہاں سرو بنا ذوقِ سفر سے بھی گیا
بے صدا ساز تھی ہر چند کہ رفتار اس کی
راستے بول پڑے خود وہ جدھر سے بھی گیا
کیا ستم ہے کہ سنبھلنے کی بھی مہلت نہ ملی
آ پڑا بوجھ وہ سر پر کہ میں سر سے بھی گیا
توشہء راہ تھی بس گم شدگی کی لذت
میں کچھ آگے تو حدِ فکر و نظر سے بھی گیا
کتنا مہنگا ہے نہ پوچیھو یہ قلم کا سودا
ہم کو تھی نفع کی امید سو گھر سے بھی گیا
وقت کی بات ہے سب کس کا گلہ کیجے فضاّ
وہ طبیعت کا خلوص اہلِ نظر سے بھی گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر تغافل اس کا شوخ اتنا پذیرائی لگے
وہ جو نفرت بھی کرے تو ہمت افزائی لگے
زندگی کرنا ترے کوچے میں رسوائی لگے
مجھ کو اک اک سانس اپنا غم کی پروائی لگے
اس سے کچھ ایسا تعارف ہے نہ پیغام و سلام
پھر بھی جب ملیے تو صدیوں کی شناسائی لگے
دیکھنے میں تو سبک چھیڑو تو ایک سیلِ بہار
تیرا پیکر بھی طلسم شیوہ آرائی لگے
ان میں اترو تو انھیں پاؤ سمندر کی طرح
یوں تو بس پایاب سی لفظوں کی گہرائی لگے
تو نے مجھ کو لا کے یہ کس موڑ پر چھوڑا کہ اب
جو قدم اٹھے وہی جذبوں کی پسپائی لگے
اب تو قاتل بھی لۓ پھرتے ہیں کاندھوں پر صلیب
مشتبہ سا ہم کو کردارِ مسیحائی لگے
کس کو اندر کی خبر بکھراؤ ہیں کتنے یہاں
جسم کو دیکھو تو اک خاموش تنہائی لگے
گم ہیں باہر کے اندھیروں میں ترے روشن نفس
وقت کی ہر نابصیری،شرطِ بینائی لگے
گنگنا اٹھتا ہے اس کی لے پہ غزلوں کا بدن
انگلیوں میں جب قلم پکڑوں تو شہنائی لگے
جس نے صرف اپنے انا سے واسطہ رکھا فضاؔ
شہر میں سب کو وہی بے چارہ ہر جائی لگے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معتبر ہوتا وہی سب کچھ جو کم بھی بولتے
آگہی لفظوں کی مل جاتی تو ہم بھی بولتے
ٹوٹتے خوابو! کبھی تم نے پکارا ہی نہیں
آنسوؤں کے ساز بے مضطرابِ غم بھی بولتے
منزلوں کی سوچ میں گم سم ہیں سب میری طرح
راستے سنتے تو کچھ نقشِ قدم بھی بولتے
رائگاں شیوہ سہی میری وفا کے نکتہ چیں
یہ کبھی تو کوئی حرف محترم بھی بولتے
ہو چلے ہیں ہم نشیں حساس و نکتہ رس بہت
اب تو ڈرتا ہوں تغافل کو کرم بھی بولتے
ہاں! کبھی تو طلسمِ حرف بازاں ٹوٹتا
کاش پتھر کی زبانوں سے صنم بھی بولتے
میں خود اپنے آپ کو پہچان تو لیتا فضاؔ
میرے بارے میں کچھ اربابِ قلم بھی بولتے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رفیقو! عمرِ جنوں کو شرمسار نہ کرو
جیو تو لالہ رُخان زمیں سے پیار کرو
مرے سبو کی تم اک موج ہو یہ عجلت کیوں
گزرتی صدیو!رکو، میرا انتظار کرو
یہ کیا کہ منہ سے نکلتے ہی بات کھو جاۓ
ذرا سخن ورو! لہجے کو باوقار کرو
اتر سکو گے نہ اس موجِ خوں میں تم لوگ!
مرے حوالے یہ آشوب روزگار کرو
پھرے ہے دشت میں عریاں بدن خزاں کی طرح
جنوں کو نذر کرو کوئی خرقہء بہا کرو
کہاں بھٹکتے ہو سوداگرانِ فکر و نظر!
مری سنو تو کوئی اور کاروبار کرو
خود اپنے ساز کی ٹوٹی ہوئی سی اک لے ہوں
مری ہنسی کو بھی فریاد میں شمار کرو
سفیرِسلطنتِ گل رخاں ہیں یہ فنکار
نثار ان پہ زرِ تاج شہریار کرو
فضاؔ میں جب تمھیں جانوں امامِ سخناں
غزل کو تکمہء بندِ قبا کرو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چاندنی چھٹکی نہ سایا بکھرا
میں ہی کیوں آج ہوں بکھرا بکھرا
آگ سینے میں لگی ہو جیسے
سانس لی جب تو دھواں سا بکھرا
ضرب تیشے کی تھی یا جنبشِ لب
ٹوٹ کر حرفِ تمنا بکھرا
مجھ سے منزل کی کہانی پوچھو
میرے قدموں تلے رستا بکھرا
رسمِ فن،قدرِ جنوں،خوابِ وفا
اک مِرے عہد میں کیا کیا بکھرا
کوٹھری ذہن کی تاریک رہی
شہر در شہر اجالا بکھرا
ہم کہیں زخم، کہیں پھول بنے
رنگ سو رنگ سے اپنا بکھرا
تجھ کو روتا ہوں اب موجِ خیال
قطرہ قطرہ مرا دریا بکھرا
ہم کہیں،جسم کہیں،روح کہیں
آج ہر فرد ہے بکھرا بکھرا
ہم خود اپنے آپ کو بھی اب یاد نہیں
سلسلہ یادوں کا ایسا بکھرا
میں نے لمحوں کو نچوڑا تو فضاؔ
کہیں آنسو، کہیں نغما بکھرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ خالد محمود