آج – 3؍ستمبر 2003
معروف ترقی پسند شاعر ” محسنؔ زیدی صاحب “ کا یومِ وفات…
نام سیّد محسن رضا زیدی اور تخلص محسنؔ تھا۔ آپ اترپردیش کے علاقے بہرائچ میں 10؍جولائی 1935ء کو پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام سیّد علی رضا زیدی اور والدہ محترمہ کا نام صغریٰ بیگم تھا ۔ آپ نے ابتدائی تعلیم پرتاپ گڑھ کے اسکول سے حاصل کی۔ آپ نے بی اے اور ایم اے معاشیات لکھنؤ یونیورسٹی سے کیا اور اکنامکس میں ماسٹرز کی ڈگری الہ آباد یونیورسٹی سے حاصل کی ۔ اس کے بعد آپ نے اکنامکس کے شعبے میں گورنمنٹ کی جانب ملازمت اختیار کی ۔ اور 1993 میں ریٹائر ہوئے۔ آپ ایک سینئر اکنامکسٹ تھے اور جوائنٹ سیکرٹری کے عہدے تک خدمات انجام دیں گورنمنٹ کی طرف سے وہ مختلف ممالک کے دوروں پر بھی جاتے رہے جن میں جاپان ، سنگا پور ، تھائی لینڈ ، تائیوان ، انڈونیشیا ، ملائشیا اور الجیریا کے علاوہ اور بھی ممالک شامل ھیں ۔
آپ کو شاعری کا شوق بچپن ہی سے تھا ۔ جب آپ صرف 15 سال کے تھے اور پرتاپ گڑھ کے ھائی سکول میں پڑھتے تھے ۔ آپ ابتدا میں نازش پرتاپ گڑھی سے بہت متاثر تھے جو اس وقت علاقے کے نوجوان شعرا میں بیحد مقبول تھے ۔ لیکن اس کے بعد آپ کو کلاسیکل اساتذہ کو پڑھنے کا موقع ملا اورکلاسیکل اساتذہ کے گرویدہ ہو گئے ۔ اس وقت جدید شعرا ء میں علامہ اقبال ، فراق گورکھپوری ، فیض احمد فیض اور جگر مراد آبادی نے انہیں بیحد متاثر کیا ۔
محسن زیدی کا زیادہ کلام غزل میں اور انہوں نے اپنے تخیل کے اظہار کیلئے سادہ الفاظ کا چناؤ کیا جو کہ پڑھنے والے کے دلوں کو چھو جاتے ہیں۔ فراقؔ گورکھپوری جو کہ الہ آباد یونیورسٹی میں ان کے استاد بھی تھے انہوں نے محسن زیدی کی پہلی کتاب مین ان کی شاعری پر بہت حوصلہ افزائی فرمائی اور ان کے اشعار کی بیحد داد دی ۔
آپ کے کلام پر بہت سی اردو اکیڈمیز نے آپ کو ادبی ایوارڈز سے بھی نوازا ۔ آپ کا زیادہ تر قیام دہلی میں رہا لیکن ریٹائر منٹ کے بعد آپ لکھنؤ منتقل ہو گئے اور وہیں 3؍ستمبر 2003ء کو آپ کا انتقال ہوا ۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤
معروف شاعر محسنؔ زیدی کے یوم وفات پر منتخب اشعار بطور خراجِ عقیدت…
اگر چمن کا کوئی در کھلا بھی میرے لیے
سموم بن گئی بادِ صبا بھی میرے لیے
مرا سخن بھی ہوا اس کے نام سے موسوم
عبث ہوا مرا اپنا کہا بھی میرے لیے
یہی نہیں کہ وہ رستے سے موڑ کاٹ گیا
نہ چھوڑا اس نے کوئی نقش پا بھی میرے لیے
تعلقات کا رکھنا بھی توڑنا بھی محال
عذابِ جاں ہے یہ رسمِ وفا بھی میرے لیے
مجھے طویل سفر کا ملا تھا حکم تو پھر
کچھ اور ہوتی کشادہ فضا بھی میرے لیے
مرے لیے جو ہے زنجیر میرا اوج نظر
کمند ہے مری فکر رسا بھی میرے لیے
دوا ہے میرے لیے جس کی خاک پا محسنؔ
اسی کا اسم ہے حرفِ دعا بھی میرے لیے
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
میری طرح رات کو غزلیں کہا کرو
تنہائیوں میں آپ سے باتیں کیا کرو
جتنا بھی دل ہو چاک سویرے سے شام تک
تار ِنفس سے رات گئے سی لیا کرو
دیوار و در کے بیچ ہی گھٹ گھٹ کے رہ نہ جاؤ
گھر سے نکل کے دشت میں گھوما پھرا کرو
کیا جا کے پتھروں کو سناؤ گے اپنی بات
جو بات بھی ہو خود سے ہی کہہ سن لیا کرو
بے چہرگی کے دشت میں پہچان کیا بتاؤں
جیسے ملے ہوا سے ہوا،آ ملا کرو
یا پھینک دو اتار کے شیشے کا پیرہن
یا پتھروں سے سوچ سمجھ کے ملا کرو
محسنؔ کبھی جو لفظوں سے اڑنے لگیں شرار
کچھ شعلۂ خیال کو نم کر لیا کرو
══━━━━✥•••✺◈✺•••✥━━━━══
ٹھہرے ہوئے نہ بہتے ہوئے پانیوں میں ہوں
یہ میں کہاں ہوں کیسی پریشانیوں میں ہوں
اک پل کو بھی سکون سے جینا محال ہے
کن دشمنانِ جاں کی نگہبانیوں میں ہوں
یوں جل کے راکھ خواب کے پیکر ہوئے کہ بس
اک آئینہ بنا ہوا حیرانیوں میں ہوں
جب راہ سہل تھی تو بڑی مشکلوں میں تھا
اب راہ ہے کٹھن تو کچھ آسانیوں میں ہوں
آساں نہیں ہے اتنا کہ بک جاؤں اس کے ہاتھ
ارزاں نہیں ہوں خواہ فراوانیوں میں ہوں
مجھ کو بھی علم خوب ہے سب مد و جزر کا
میں بھی تو سب کے ساتھ انہیں پانیوں میں ہوں
محسنؔ تمام تر سر و ساماں کے باوجود
پوچھو نہ کتنی بے سر و سامانیوں میں ہوں
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
محسنؔ زیدی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ