آج – 28؍اکتوبر 2010
خواتین شعراء میں منفرد شناخت رکھنے والی معروف شاعرہ” پروین فناؔ سیّد صاحبہ “ کا یومِ وفات…
پروین فنا سیّد، ٣؍ﺳﺘﻤﺒﺮ ١٩٣٦ ﺀ ﮐﻮ ﻻﮨﻮﺭ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺋﯿﮟ۔ آپ کے ﻭﺍﻟﺪ کا نام ﺳﯿﺪ ﻧﺎﺻﺮ ﺣﺴﯿﻦ ﺭﺿﻮﯼ ہے ۔
ﺷﺎﻋﺮﯼ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻣﻮﺳﯿﻘﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺼﻮﺭﯼ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮔﮩﺮﺍ ﺷﻐﻒ ﺭﮐﮭﺎ۔
1951 ﺀ ﻣﯿﮟ ﮔﻮﺟﺮﺍﻧﻮﺍﻟﮧ ﺳﮯ ﻣﯿﭩﺮﮎ ﮐﯿﺎ ۔ 1958 ﺀ ﻣﯿﮟ ﺭﯾﮉﯾﻮ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ، ﺭﺍﻭﻟﭙﻨﮉﯼ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﯽ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﺍﭘﻨﺎ ﮐﻼﻡ ﻧﺸﺮ ﮐﯿﺎ۔
ﻗﯿﺎﻡِ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﮔﻮﺭﺩﺍﺳﭙﻮﺭ ﻣﯿﮟ ﻣﻘﯿﻢ ﺗﮭﯿﮟ ،ﺟﮩﺎﮞ ﮐﮯ ﮨﻨﺪﻭ ﻣﺴﻠﻢ ﻓﺴﺎﺩﺍﺕ ﻧﮯ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺫﮨﻦ ﮐﻮ ﺧﺎﺻﺎ ﻣﺘﺎﺛﺮ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﺍﯾﻒ ﺳﯽ ﮐﺎﻟﺞ ﻓﺎﺭ ﻭﯾﻤﻦ ، ﻻﮨﻮﺭ ﺳﮯ ﺍﻧﭩﺮ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮑﺎﻟﺮ ﺷﭗ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﯽ ۔ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﮨﻮﮔﺌﯽ، ﺁﭖ ﮐﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﺳﯿﺪ ﺍﺣﻤﺪ ﭘﺎﮎ ﻓﻮﺝ ﻣﯿﮟ ﮐﺮﻧﻞ ﺗﮭﮯ۔
ﺷﺎﺩﯼ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﭘﺮﻭﯾﻦ ﻓﻨﺎ ﺳﯿﺪ ﻧﮯ ﻻﮨﻮﺭ ﮔﺮﻟﺰ ﮐﺎﻟﺞ ﺳﮯ ﺑﯽ۔ﺍﮮ ﭘﺎﺱ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﯾﮩﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﮐﺎ ﺍﺧﺘﺘﺎﻡ ﮐﺮﺩﯾﺎ۔ﮔﮭﺮ ﺑﺎﺭ ﮐﯽ ﻣﺼﺮﻭﻓﯿﺎﺕ ﮐﮯ ﺳﺒﺐ ﻣﺰﯾﺪ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﺟﺎﺭﯼ ﻧﮧ ﺭﮐﮫ ﺳﮑﯿﮟ۔
ﺷﺎﻋﺮی ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﺍﺩﺍ ﺟﻌﻔﺮی ﺳﮯ ﺧﺎﺻﯽ ﻣﺘﺎﺛﺮ ﺭﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺑﺘﺪﺍﺋﯽ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﺍﺩﺍؔ ﮐﺎ ﺭﻧﮓ ﻧﮧ ﭼﺎﮨﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﺑﮭﯽ ﺟﮭﻠﮑﺘﺎ ﮨﮯ۔
ﭘﺮﻭﯾﻦ ﻓﻨﺎؔ سیّد ﻧﮯ ۱۵ ﺑﺮﺱ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﺳﮯ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﮐﺎﺁﻏﺎﺯ ﮐﯿﺎ ۔
ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں :
" حرفِ وفا"، " تمنا کا دوسرا قدم"، "یقین"، "لہو سرخ رو ہے"، "حیرت" ۔
( ' کلیاتِ پروین فناؔ سیّد '، ٢٠٠٩ میں شائع ہوئی ہے ۔)
پروین فناؔ سیّد ، ٢٨؍اکتوبر ٢٠١٠ء کو کراچی میں انتقال کر گئیں ۔
✨ پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤
معروف خاتون شاعرہ پروین فناؔ سیّد کے یومِ وفات پر منتخب کلام بطورِ خراجِ عقیدت…
کاش طوفاں میں سفینے کو اتارا ہوتا
ڈوب جاتا بھی تو موجوں نے ابھارا ہوتا
ہم تو ساحل کا تصور بھی مٹا سکتے تھے
لب ساحل سے جو ہلکا سا اشارا ہوتا
تم ہی واقف نہ تھے آدابِ جفا سے ورنہ
ہم نے ہر ظلم کو ہنس ہنس کے سہارا ہوتا
غم تو خیر اپنا مقدر ہے سو اس کا کیا ذکر
زہر بھی ہم کو بصدِ شوق گوارا ہوتا
باغباں تیری عنایت کا بھرم کیوں کھلتا
ایک بھی پھول جو گلشن میں ہمارا ہوتا
تم پر اسرار فناؔ راز بقا کھل جاتے
تم نے ایک بار تو یزداں کو پکارا ہوتا
══━━━━✥•••✺◈✺•••✥━━━━══
تمہارا ذوقِ پرستش مجھے عزیز مگر
میں اس زمین کی مٹی مجھے خدا نہ کہو
تمہارے ساتھ اگر دو قدم بھی چل نہ سکوں
تو خستہ پا ہوں مجھے مجرم وفا نہ کہو
یہ ایک پل کی دھڑکتی حیات بھی ہے بہت
تمام عمر کے اس روگ کو برا نہ کہو
اس ایک خوف سے لب سی لیے تمہارے حضور
کہ حرفِ شوق کو اظہارِ مدعا نہ کہو
یہ بے رخی کا گلا مجھ سے پہلے خود سے کرو
اسے نگاہ کا یک طرفہ فیصلہ نہ کہو
گزرتے وقت کے مرہم سے بھر نہ جائے کہیں
اس ایک زخم کو چاہت کی انتہا نہ کہو
میں ایک زندہ حقیقت ہوں ایک پل ہی سہی
تمہارا عکس ہوں تم تو مجھے فناؔ نہ کہو
●━─┄━─┄═•✿✺❀✺✿•═┄─━─━━●
ناموس وفا کا پاس رہا شکوہ بھی زباں تک لا نہ سکے
اندر سے تو روئے ٹوٹ کے ہم پر ایک بھی اشک بہا نہ سکے
ساحل تو نظر آیا لیکن طوفاں میں بلا کی شدت تھی
موجوں کو منایا لاکھ مگر ہم جانبِ ساحل آ نہ سکے
ہم کہتے کہتے ہار گئے اور دنیا نے کچھ بھی نہ سنا
جب دنیا نے اصرار کیا ہم اپنا درد سنا نہ سکے
کب ہم نے گلستاں چاہا تھا کب ہم نے بہاریں مانگیں تھیں
اک گل کی تمنا تھی ہم کو وہ بھی تو چمن میں پا نہ سکے
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
پروین فناؔ سیّد
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ