حرم ہو دیر ہوہر جا ہے آدمی ہی خدا
مجھے کہیں مرا پروردگار مل نہ سکا
اصلی نام :سلطانہ قزلباش
قلمی نام:سحاب قزلباش
سن ولادت:1934ء
تاریخ وفات :27جولائی 2004ء
لندن
سحاب قزلباش کا نام سلطانہ قزلباش تھا۔وہ 1934ء میں راجستھان کی ایک سکھ ریاست جھالا واڑ میں پیدا ہوئیں ۔ان کا وطن دلی ہے ۔ ابتدائی تعلیم دلّی کوئن میری اسکول میں پائی ۔سحاب نے آنکھیں کھولیں تو گھر میں علمی وادبی فضا دیکھی ۔ بہزاد لکھنوی، حیرت دہلوی ، جگر مرادآبادی اور دوسرے شعرا کا کلام اور ان لوگوں کا ترنم بہت غور سے سنا کرتیں۔ کبھی اپنے والد کو تحت اللفظ پڑھتے سنتیں۔ اسی ماحول میں انھیں خود بھی شعر کہنے کا ذوق پیدا ہوا۔تقسیم ہند کے بعد سحاب قزلباش لاہور آ گئیں۔ وہاں انھوں نے ریڈیو پاکستان ،کراچی میں مشہور ڈراما’’انارکلی‘‘ کا کردار ادا کیا جسے لوگوں نے بہت پسند کیا۔ کراچی میں مشاعروں کے علاوہ سماجی کاموں میں بھی حصہ لیا ۔ان کے گھر میں فارسی بولی جاتی تھی۔ 1958ء میں وہ لندن چلی گئیں جہاں وہ بی بی سی کی اردو سروس میں بچوں کے پروگرام کرنے لگیں۔ ان کا ترنم بہت اچھا تھا اور وہ مشاعروں کی کامیاب ترین شاعرہ تھیں۔ 27 جولائی 2004ء لندن میں انتقال کرگئیں۔ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں: ’لفظوں کے پیرہن‘(شعری مجموعہ)، ’ بدلیاں‘(افسانے)، ’میرا کوئی ماضی نہیں‘(یادوں اور خاکوں کا مجموعہ)، ’ملکوں ملکوں شہروں شہروں‘ (سفرنامہ)۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:292
غروب مہر پہ کس نے لہو چڑھایا ہے
یہ کس نے خون جلایا ہے روشنی کی لیے
حرم ہو دیر ہو ہر جا ہے آدمی ہی خدا
مجھے کہیں مرا پروردگار مل نہ سکا
تمام عمر ہی روتے گزر گئی ہے سحاب
ہمیں تو بھول کے بھی غم گسار مل نہ سکا
آدمی اک تضاد باہم ہے
کبھی جنت کبھی جہنم ہے
غم ہے اک نعمت خداوندی
جتنا برتو اسی قدر کم ہے
بجھ رہے ہیں چراغِ دیر و حرم
دل جلاؤ کہ روشنی کم ہے
غزل
۔۔۔۔
ہزار باتیں ہیں دل میں ابھی سنانے کو
مگر زباں نہیں ملتی ہمیں بتانے کو
وہ آنکھیں آج ستارے تراشتی دیکھیں
جنہوں نے رنگ تبسم دیا زمانے کو
ہم اہل ظرف ابھی تک ہیں ایک جنس لطیف
جنہیں کچل دیا دنیا نے آزمانے کو
ہمارے پھول ہمارا چمن ہماری بہار
ہمیں کو جا نہیں ملتی ہے آشیانے کو
سحابؔ اتنے تغیر نواز ہیں ہم بھی
کہ اپنے نغموں نے چونکا دیا زمانے کو
غزل
۔۔۔۔
آدمی اک تضاد باہم ہے
کبھی جنت کبھی جہنم ہے
غم ہے اک نعمت خداوندی
جتنا برتو اسی قدر کم ہے
التفات آپ کا بجا لیکن
کیا خوشی ہے کہ آنکھ پر نم ہے
بجھ رہے ہیں چراغ دیر و حرم
دل جلاؤ کہ روشنی کم ہے
اب کسی سے گلہ نہیں مجھ کو
اپنی دنیا ہی اپنا عالم ہے
غزل
۔۔۔۔
بڑھے چلو کہ تھکن تو نشے کی محفل ہے
ابھی تو دور بہت دور اپنی منزل ہے
یہ بے قرار تبسم ترے لبوں کا فسوں
یہی تو چاک گریباں کی پہلی منزل ہے
کسی کا راز تو پھر بھی پرائی بات ہوئی
خود اپنے دل کو سمجھنا بھی سخت مشکل ہے
کسی نے چاند پہ لہرا دیا ہے پرچم وقت
کوئی ہماری طرح سہل جس کو مشکل ہے
اک آبشار پہ مانند برگ آوارہ
کوئی مقام ہے اپنا نہ کوئی منزل ہے