آج – 2؍اپریل 1957
منفرد لب و لہجہ کے لیے مشہور اور معروف شاعر” طارقؔ نعیم صاحب“ کا یومِ ولادت…
طارق نعیم، ۲؍اپریل۱۹۵۷ء کو چاہ کوڑے والا، موضع پیرتنوں، ملتان میں پیدا ہوئے۔میٹرک گورنمنٹ ہائی اسکول، مخدوم عالی، ملتان سے کیا۔ انٹر سے بی اے تک ایس ای کالج بہاول پور سے کیا۔ ایم اے (اردو ادب) پنجاب یونیورسٹی ، لاہور سے پاس کیا۔ اس وقت نیشنل بک فاؤنڈیشن ، اسلام آباد میں پبلک ریلیشنز افسر ہیں اور بک فاؤنڈیشن کے جریدے ’’ کتاب‘‘ کے معاون ایڈیٹر ہیں۔ ا ن کا شعری مجموعہ ’’دیے میں جلتی رات‘‘ کے عنوان سے شائع ہوگیا ہے۔ دوسرا شعری مجموعہ ’’رکی ہوئی شاموں کی راہ داریاں‘‘ ۲۰۰۶ء میں شائع ہوا ہے۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:419
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
══━━━━✥•••◈•••✥━━━━══
معروف شاعر طارقؔ نعیم کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطورِ اظہارِ عقیدت…
اب آسمان بھی کم پڑ رہے ہیں اس کے لیے
قدم زمین پر رکھا تھا جس نے ڈرتے ہوئے
—
پوشیدہ کسی ذات میں پہلے بھی کہیں تھا
میں ارض و سماوات میں پہلے بھی کہیں تھا
—
ابھی پھر رہا ہوں میں آپ اپنی تلاش میں
ابھی مجھ سے میرا مزاج ہی نہیں مل رہا
—
ابھی تو منصبِ ہستی سے میں ہٹا ہی نہیں
بدل گئے ہیں مرے دوستوں کے لہجے بھی
—
اٹھا اٹھا کے ترے ناز اے غمِ دنیا
خود آپ ہی تری عادت خراب کی ہم نے
—
بے وجہ نہ بدلے تھے مصور نے ارادے
میں اس کے خیالات میں پہلے بھی کہیں تھا
—
ترے خیال کی لو ہی سفر میں کام آئی
مرے چراغ تو لگتا تھا روئے اب روئے
—
جمال مجھ پہ یہ اک دن میں تو نہیں آیا
ہزار آئینے ٹوٹے مرے سنورتے ہوئے
—
خوش ارزانی ہوئی ہے اس قدر بازارِ ہستی میں
گراں جس کو سمجھتا ہوں وہ کم قیمت نکلتا ہے
—
زمین اتنی نہیں ہے کہ پاؤں رکھ پائیں
دل خراب کی ضد ہے کہ گھر بنایا جائے
—
رات رو رو کے گزاری ہے چراغوں کی طرح
تب کہیں حرف میں تاثیر نظر آئی ہے
—
عجب نہیں در و دیوار جیسے ہو جائیں
ہم ایسے لوگ جو خود سے کلام کرتے ہیں
—
عجیب درد کا رشتہ تھا سب کے سب روئے
شجر گرا تو پرندے تمام شب روئے
—
وہ آئینہ ہے تو حیرت کسی جمال کی ہو
جو سنگ ہے تو کہیں رہ گزر میں رکھا جائے
—
کنارہ کر نہ اے دنیا مری ہست زبونی سے
کوئی دن میں مرا روشن ستارہ ہونے والا ہے
—
کوئی کب دیوار بنا ہے میرے سفر میں
خود ہی اپنے رستے کی دیوار رہا ہوں
—
کھول دیتے ہیں پلٹ آنے پہ دروازۂ دل
آنے والے کا ارادہ نہیں دیکھا جاتا
—
یہ خیال تھا کبھی خواب میں تجھے دیکھتے
کبھی زندگی کی کتاب میں تجھے دیکھتے
—
یہ ویرانی سی یوں ہی تو نہیں رہتی ہے آنکھوں میں
مرے دل ہی سے کوئی جادۂ وحشت نکلتا ہے
—
کچھ اپنا درد ہی طارقؔ نعیم ایسا تھا
بغیر موسم گریہ بھی ہم غضب روئے
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
طارقؔ نعیم
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ