آج – 07؍ستمبر 1970
جدید ادب کے بنیاد ساز ادبی رسالے ’صبا‘ کے مدیر، انقلابی نظم نگار اور معروف دکن شاعر ”سلیمان اریبؔ صاحب“ کا یومِ وفات…
نام سلیمان اریب اور تخلص اریبؔ تھا۔ 5؍اپریل 1922ء کو حیدرآباد، دکن میں پیدا ہوئے۔ میٹرک کرنے کے بعد ہی انھیں شعروسخن سے دل چسپی ہوگئی تھی۔اس ذوق سخن کی وجہ سے مزید تعلیم جاری نہ رکھ سکے۔ سیاسی تحریکات میں حصہ لینے اور انقلابی نظمیں لکھنے کی وجہ سے دومرتبہ جیل گئے۔ماہ نامہ ’’چراغ‘‘ اور ماہ نامہ’’سب رس‘‘ کی ادارت کے فرائض چند سالوں تک انجام دیتے رہے۔ 1955ء سے اپنا رسالہ ’’صبا‘‘ حیدرآباد سے نکالا۔ اریب نظم اور غزل دونوں کہتے تھے۔
7؍ستمبر 1970ء کو حیدرآباد ، دکن میں انتقال کرگئے۔ ان کی ایک کتاب ’’پاس گریباں‘‘ کے نام سے شائع ہوگئی ہے۔ ’’کڑی خوش بو‘‘ ان کی دوسری کتاب ہے۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ: 130
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
معروف شاعر سلیمان اریبؔ کے یومِ وفات پر منتخب کلام بطورِ خراجِ عقیدت…
نہیں جو تیری خوشی لب پہ کیوں ہنسی آئے
یہی بہت ہے کہ آنکھوں میں کچھ نمی آئے
اندھیری رات میں کاسہ بدست بیٹھا ہوں
نہیں یہ آس کہ آنکھوں میں روشنی آئے
ملے وہ ہم سے مگر جیسے غیر ملتے ہیں
وہ آئے دل میں مگر جیسے اجنبی آئے
خود اپنے حال پہ روتی رہی ہے یہ دنیا
ہمارے حال پہ دنیا کو کیوں ہنسی آئے
نہ جانے کتنے زمانوں سے ہم بہکتے ہیں
فقیہ بہکے تو کچھ لطف مے کشی آئے
صلیب و دار کے قصے بہت پرانے ہیں
صلیب و دار تو ہم راہ زندگی آئے
ہری نہ ہو نہ سہی شاخ نخل غم کی اریبؔ
ہمارے گریۂ پیہم میں کیوں کمی آئے
─━━━═•✵•••••••••••••••✵•═━━━─
حساب عمر کرو یا حساب جام کرو
بقدرِ ظرف شبِ غم کا اہتمام کرو
اگر ذرا بھی روایت کی پاسداری ہے
خرد کے دور میں رسمِ جنوں کو عام کرو
خدا گواہ فقیروں کا تجربہ یہ ہے
جہاں ہو صبح تمہاری وہاں نہ شام کرو
نہ رند و شیخ نہ ملا نہ محتسب نہ فقیہ
یہ مے کدہ ہے یہاں سب کو شاد کام کرو
وہی ہے تیشہ بیاباں وہی ہے دارِ وحی
جو ہو سکے تو زمانے میں تم بھی نام کرو
خرامِ یار کی آہٹ سی دل سے آتی ہے
سرشکِ خوں سے چراغاں کا اہتمام کرو
اسیرِ زلف ہمیں اک نہیں ہیں میرؔ بھی تھے
مگر اب اٹھ کے دو عالم کو زیرِ دام کرو
اریبؔ دیکھو نہ اتراؤ چند شعروں پر
غزل وہ فن ہے کہ غالبؔ کو تم سلام کرو
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
سلیمان اریبؔ
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ