آج – یکم؍مئی 2018
اردو کے ممتاز جدید ناقد و ادیب ، صحافی اور معروف شاعر” پروفیسر فضیلؔ جعفری صاحب “ کا یومِ وفات…
پروفیسر فضیل جعفری، ۲۲؍جولائی۱۹۳۶ء کو الٰہ آباد کے ایک قصبےمیں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنا تدریسی کام اورنگ آباد سے شروع کیا اور کوئی دس برس وہاں پڑھا یاپھر ۱۹۷۰ میں وہ برہانی کالج(ممبئی) سے وابستہ ہوئے۔ وہ دوبار مشہور روزنامہ انقلاب (ممبئی) کے مدیر بنے اور کچھ مدت وہ بطور ایڈیٹر ہفت روزہ بلٹز (اُردو) سے بھی متعلق رہے۔ موصوف انگریزی کے ایک میگزین ’ وَن انڈیا ون پیپل‘ کے ایڈیٹر بھی کام کر چکےہیں۔
ان کی کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں جن میں سے چٹان اور پانی، افسوس حاصل کا، کمان اور زخم‘ ، صحرا میں لفظ اور رنگِ شکستہ شائع ہو چکے ہیں۔ انھیں ملک کا مشہور اعزاز ' غالب ایوارڈ' بھی تفویض کیا گیاتھا۔
یکم؍مئی ٢٠١٨ء کو فضیلؔ جعفری، ممبئی میں انتقال کر گئے ۔
ﺑﺤﻮﺍﻟۂ : ﭘﯿﻤﺎﻧۂ ﻏﺰﻝ ( ﺟﻠﺪ ﺩﻭﻡ ) ،ﻣﺤﻤﺪ ﺷﻤﺲ ﺍﻟﺤﻖ،ﺻﻔﺤﮧ :363
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✧◉➻══════════════➻◉✧
ممتاز شاعر فضیلؔ جعفری کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…
آٹھوں پہر لہو میں نہایا کرے کوئی
یوں بھی نہ اپنے درد کو دریا کرے کوئی
—
آتش فشاں زباں ہی نہیں تھی بدن بھی تھا
دریا جو منجمد ہے کبھی موجزن بھی تھا
—
اخلاق و شرافت کا اندھیرا ہے وہ گھر میں
جلتے نہیں معصوم گناہوں کے دیے بھی
—
بھولے بسرے ہوئے غم پھر ابھر آتے ہیں کئی
آئینہ دیکھیں تو چہرے نظر آتے ہیں کئی
—
دشت تنہائی میں جینے کا سلیقہ سیکھئے
یہ شکستہ بام و در بھی ہم سفر ہو جائیں گے
—
دل یوں تو گاہ گاہ سلگتا ہے آج بھی
منظر مگر وہ رقصِ شرر کا نہیں رہا
—
احساس جرم جان کا دشمن ہے جعفریؔ
ہے جسم تار تار سزا کے بغیر بھی
—
ہر آدمی میں تھے دو چار آدمی پنہاں
کسی کو ڈھونڈنے نکلا کوئی ملا مجھ کو
—
اک خوف سا درختوں پہ طاری تھا رات بھر
پتے لرز رہے تھے ہوا کے بغیر بھی
—
جو بھر بھی جائیں دل کے زخم دل ویسا نہیں رہتا
کچھ ایسے چاک ہوتے ہیں جو جڑ کر بھی نہیں سلتے
—
کس درد سے روشن ہے سیہ خانۂ ہستی
سورج نظر آتا ہے ہمیں رات گئے بھی
—
کوئی منزل آخری منزل نہیں ہوتی فضیلؔ
زندگی بھی ہے مثال موج دریا راہ رو
—
میں اور مری ذات اگر ایک ہی شے ہیں
پھر برسوں سے دونوں میں صف آرائی سی کیوں ہے
—
منزلیں سمتیں بدلتی جا رہی ہیں روز و شب
اس بھری دنیا میں ہے انسان تنہا راہ رو
—
مزاج الگ سہی ہم دونوں کیوں الگ ہوں کہ ہیں
سراب و آب میں پوشیدہ قربتیں کیا کیا
—
تعلقات کا تنقید سے ہے یارانہ
کسی کا ذکر کرے کون احتساب کے ساتھ
—
ترے بدن میں مرے خواب مسکراتے ہیں
دکھا کبھی مرے خوابوں کا آئینہ مجھ کو
—
یہ سچ ہے ہم کو بھی کھونے پڑے کچھ خواب کچھ رشتے
خوشی اس کی ہے لیکن حلقۂ شر سے نکل آئے
—
زہر میٹھا ہو تو پینے میں مزا آتا ہے
بات سچ کہیے مگر یوں کہ حقیقت نہ لگے
—
ضد میں دنیا کی بہرحال ملا کرتے تھے
ورنہ ہم دونوں میں ایسی کوئی الفت بھی نہ تھی
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
فضیلؔ جعفری
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ