آج – 12؍اپریل 2001
انشائیہ پرداز، تنقید نگار، نثر نگار اور معروف شاعر” نظیرؔ صدّیقی صاحب “ کا یومِ وفات…
نام محمد نظیر الدین صدّیقی اور تخلص نظیرؔ تھا۔ ۷؍نومبر ۱۹۳۰ء کو سرائے ساہو، ضلع چھپرا (بہار) میں پیدا ہوئے۔۱۹۵۳ء میں ڈھاکہ سے اردو میں ایم اے کیا۔ پنجاب یونیورسٹی سے انگریزی میں ۱۹۷۶ء میں ایم اے کیا۔ڈھاکا میں مختلف کالجوں میں تدریسی فرائض انجام دیتے رہے۔۱۹۹۰ء میں بیجنگ یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے سربراہ مقرر ہوئے۔ نظیر صدیقی نے اردو کے علاوہ انگریزی میں بھی مضامین اور ریویو اورکالم لکھے۔ انھوں نے انشائیے اور شخصی خاکے بھی لکھے۔ تنقید نگاری ان کا بنیادی ذریعہ اظہار تھا۔ وہ اردو کے ایک بہترین نثر نگار تھے۔ ۱۲؍اپریل ۲۰۰۱ء کو اسلام آباد میں وفات پاگئے۔انھوں نے مختلف موضوعات پر اردو اور انگریزی میں ۲۰ سے زائد کتابیں تصنیف کی ہیں۔
چند کتابوں کے نام یہ ہیں: ’شہرت کی خاطر‘(انشائیے)، ’تأثرات وتعصبات‘، ’میرے خیال میں‘، ’ادبی جائزے‘، ’تفہیم وتعبیر‘، ’اردو ادب کے مغربی دریچے‘، ’ڈاکٹر عندلیب شادانی۔ایک مطالعہ‘(تنقیدی مضامین)، ’جان پہچان‘ (شخصی خاکے)، ’حسرتِ اظہار‘ (مجموعہ کلام)، ’جدید اردو غزل۔ایک مطالعہ‘، ’اقبال اینڈ رادھا کرشن‘ (انگریزی)، ’گزرگاہ خیال‘، ’اعتراف‘ (جاپانی کتاب کا ترجمہ)، اس کتاب پر اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے ایوارڈ دیا گیا۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:248
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✧◉➻══════════════➻◉✧
معروف شاعر نظیرؔ صدّیقی کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…
اور ہی وہ لوگ ہیں جن کو ہے یزداں کی تلاش
مجھ کو انسانوں کی دنیا میں ہے انساں کی تلاش
—
ابھی سے وہ دامن چھڑانے لگے ہو
جو اب تک مرے ہاتھ آیا نہیں ہے
—
آئے تو دل تھا باغ باغ اور گئے تو داغ داغ
کتنی خوشی وہ لائے تھے کتنا ملال دے گئے
—
جس درجہ نیک ہونے کی ملتی رہی ہے داد
اس درجہ نیک بننے کا ارماں کبھی نہ تھا
—
جو لوگ موت کو ظالم قرار دیتے ہیں
خدا ملائے انہیں زندگی کے ماروں سے
—
رات سے شکایت کیا بس تمہیں سے کہنا ہے
تم ذرا ٹھہر جاؤ رات کب ٹھہرتی ہے
—
چشمِ نم کچھ بھی نہیں اور شعر تر کچھ بھی نہیں
اب یہاں خونِ جگر نقشِ ہنر کچھ بھی نہیں
—
کسی کی مہربانی سے محبت مطمئن کیا ہو
محبت تو محبت سے بھی آسودہ نہیں ہوتی
—
ماتم نہیں مناسب اب جان کے جہاں کا
دشتِ طلب کے رستے ہموار ہو گئے ہیں
—
ہر شخص بن گیا ہے خدا تیرے شہر میں
کس کس کے در پہ مانگیں دعا تیرے شہر میں
—
اگر بخش دینے پہ تیار ہو تم
مجھے جرم سے اپنے انکار کیوں ہو
—
علم و ہنر کے فیض سے علم و ہنر کے باوجود
محفلِ زیست میں نظیرؔ رنگ ہے روشنی نہیں
—
کس قوت بے درد کا اظہار ہے دنیا
ہر دل کو گلا ہے کہ دلِ آزار ہے دنیا
—
اہلِ کمال کو نظیرؔ اہلِ جہاں نے کیا دیا
اہلِ جہاں کو کیا نہیں اہلِ کمال دے گئے
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
نظیرؔ صدّیقی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ