آج – 21؍فروری 2005
پاکستان کے معروف طنز و مزاح نگار، اپنے کالم ’خامہ بگوش‘ کے لیے مشہور اور معروف شاعر” مشفق ؔ خواجہ صاحب “ کا یومِ وفات…
نام خواجہ عبدالحئ اور تخلص مشفقؔ تھا۔ ۱۹؍دسمبر ۱۹۳۵ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد ۱۹۵۷ء میں بی اے(آنرز) اور ۱۹۵۸ء میں ایم اے (اردو) کراچی یونیورسٹی سے پاس کیے۔۱۹۵۷ء سے ۱۹۷۳ء تک انجمن میں علمی وادارتی شعبہ کے نگراں رہے۔ یہاں خواجہ صاحب نے بحیثیت مدیر ماہ نامہ ’’قومی زبان‘‘ سہ ماہی ’’اردو‘‘ اور ’’قاموس الکتب‘‘ خدمات انجام دیں۔ وہ شاعر کے علاوہ کالم نویس ، نقاد، اور ایک بلند پایہ محقق تھے۔ بقول خواجہ صاحب پاکستان کی کسی ایک لائبریری میں اتنے ریفرنس بک نہیں ہیں جتنی ان کے کتب خانے میں ہیں۔ خواجہ صاحب ہمیشہ تصنیف وتالیف میں مشغول رہتے تھے۔ ان کی تصانیف وتالیفات کے نام یہ ہیں: تذکرہ ’خوش معرکہ ریبا‘ (جلد اول ودوم) از سعاد ت خاں ناصر، ترتیب وتدوین مشفق خواجہ، ’’غالب اور صفیر بلگرامی‘‘، ’’جائزہ مخطوطات اردو‘‘ (۱۲۴۸ صفحات پر مشتمل) ’’خامہ بگوش کے قلم سے ‘‘، ’’سخن در سخن‘‘ ، ’’سخن ہائے نا گفتنی‘‘، ’’سخن ہائے گسترانہ‘‘ (ادبی کالموں کا انتخاب)، ’’ابیات‘‘ (شعری مجموعہ)، ’’کلیاتِ یگانہ‘‘ (ترتیب وتدوین)۔ریڈیو پاکستان کے لیے مختلف موضوعات پر تقریباً ۵۰ فیچر لکھے۔ ان کی علمی وادبی خدمات کے اعتراف میں ۱۹۸۸ء میں ان کو صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ۲۱؍فروری۲۰۰۵ء کو کراچی میں انتقال کرگئے۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:307
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✧◉➻══════════════➻◉✧
معروف شاعر مشفق ؔ خواجہ کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…
دل ایک اور ہزار آزمائشیں غم کی
دیا جلا تو تھا لیکن ہوا کی زد پر تھا
—
بجھے ہوئے در و دیوار دیکھنے والو
اسے بھی دیکھو جو اک عمر یاں گزار گیا
—
مری نظر میں گئے موسموں کے رنگ بھی ہیں
جو آنے والے ہیں ان موسموں سے ڈرنا کیا
—
نظر چرا کے وہ گزرا قریب سے لیکن
نظر بچا کے مجھے دیکھتا بھی جاتا تھا
—
ہزار بار خود اپنے مکاں پہ دستک دی
اک احتمال میں جیسے کہ میں ہی اندر تھا
—
یہ حال ہے مرے دیوار و در کی وحشت کا
کہ میرے ہوتے ہوئے بھی مکان خالی ہے
—
یہ لمحہ لمحہ زندہ رہنے کی خواہش کا حاصل ہے
کہ لحظہ لحظہ اپنے آپ ہی میں مر رہا ہوں میں
—
کس توقع پہ کوئی چاہے وفاؤں کا صلہ
اس نے کچھ سوچ سمجھ کر ہی بھلایا ہوگا
—
کتنے چہروں پہ رہے عکس مری حیرت کے
مہرباں مجھ پہ ہوئے آئینہ پیکر کیا کیا
—
کوئی دل تو نہیں ہے کہ ٹھہر جائے گا
وقت اک خواب رواں ہے سو گزر جائے گا
—
یہ کیا طلسم ہے میں اس کو دیکھ بھی نہ سکوں
کہ جس کے جلووں سے دامان چشم بھر جائے
—
کیوں خلوت غم میں رہتے ہو کیوں گوشہ نشیں بے کار ہوئے
آخر تمہیں صدمہ کیا پہنچا کیا سوچ کے خود آزار ہوئے
—
کچھ اس طرح سے تیرا غم دیئے جلاتا تھا
کہ خاک دل کا ہر اک ذرہ جگمگاتا تھا
—
مثالِ عکس کنجِ ذات سے باہر رہا ہوں میں
کہ آپ اپنے مقابل آئینہ بن کر رہا ہوں میں
—
اے مشفق ؔ من اس حال میں تم کس طرح بسر فرماؤ گے
انجان بنے چپ بیٹھو گے اور جان کے دھوکے کھاؤ گے
—
وہ کون ہے کہ جلاتا ہے دل میں شمعِ امید
پھر اپنے ہاتھ سے اس کو بجھا بھی دیتا ہے
—
ہم پہ تنہائی میں کچھ ایسے بھی لمحے آئے
بن گئے آپ کی تصویر ہمارے سائے
—
غم ہی لے دے کے مری دولت بیدار نہیں
یہ خوشی بھی ہے میسر کوئی غم خوار نہیں
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
مشفق ؔ خواجہ
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ