9؍اپریل 1928*
بیسویں صدی میں اردو اور پنجابی زبان کے اہم ترین شاعروں میں شمار، منفرد لب و لہجے کے نامور شاعر” منیرؔ نیازی صاحب “ کا یومِ ولادت…
نام محمد منیر خاں اور تخلص منیرؔ ہے۔ ۹؍اپریل ۱۹۲۸ء کو خان پور، ضلع ہوشیار پور میں پیدا ہوئے۔۱۹۴۷ء میں بی اے کیا۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان آگئے۔مختلف اخبارات اور جرائد سے وابستہ رہے۔ فلمی نغمہ نگاری کی۔غزل ان کی بنیادی شناخت ہے۔پابند اور آزاد نظمیں بھی کافی تعداد میں لکھی ہیں۔ نثری نظمیں بھی لکھتے تھے۔پنجابی کے بھی بہت اچھے شاعر تھے۔وہ اردو اور پنجابی کے ۳۰؍ سے زائد کتابوں کے مصنف تھے۔ اردو شاعری کے چند مجموعوں کے نام یہ ہیں : ’تیز ہوا اور تنہا پھول‘،’جنگل میں دھنک‘، ’دشمنوں کے درمیان شام‘، ’ماہِ منیر‘، ’اس بے وفاکا شہر‘،’چھ رنگین دروازے‘۔ان کو یکجا کرکے ’’کلیاتِ منیر‘، ’غزلیاتِ منیر‘، اور ’نظمِ منیر‘، چھپ گئی ہے۔ ۲۶؍دسمبر۲۰۰۶ء کو لاہور میں انتقال کرگئے۔ انہیں اکادمی ادبیات پاکستان کا ’ کمالِ فن‘ ایوارڈ دیا گیا۔ انھیں حسن کارکردگی ایوارڈ کے علاوہ دومرتبہ ستارۂ امتیاز سے بھی نوازا گیا۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:221
❂◆━━━━━▣✿▣━━━━━━◆❂
مشہور شاعر منیرؔ نیازی کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت ۔۔۔
اپنی ہی تیغِ ادا سے آپ گھائل ہو گیا
چاند نے پانی میں دیکھا اور پاگل ہو گیا
—
خمارِ شب میں اسے میں سلام کر بیٹھا
جو کام کرنا تھا مجھ کو وہ کام کر بیٹھا
—
غیروں سے مل کے ہی سہی بے باک تو ہوا
بارے وہ شوخ پہلے سے چالاک تو ہوا
—
غم کی بارش نے بھی تیرے نقش کو دھویا نہیں
تو نے مجھ کو کھو دیا میں نے تجھے کھویا نہیں
—
کل میں نے اس کو دیکھا تو دیکھا نہیں گیا
مجھ سے بچھڑ کے وہ بھی بہت غم سے چور تھا
—
خیال جس کا تھا مجھے خیال میں ملا مجھے
سوال کا جواب بھی سوال میں ملا مجھے
—
خواہشیں ہیں گھر سے باہر دور جانے کی بہت
شوق لیکن دل میں واپس لوٹ کر آنے کا تھا
—
کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے
سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے
—
محبت اب نہیں ہوگی یہ کچھ دن بعد میں ہوگی
گزر جائیں گے جب یہ دن یہ ان کی یاد میں ہوگی
—
وہ جس کو میں سمجھتا رہا کامیاب دن
وہ دن تھا میری عمر کا سب سے خراب دن
—
مدت کے بعد آج اسے دیکھ کر منیرؔ
اک بار دل تو دھڑکا مگر پھر سنبھل گیا
—
تھکے لوگوں کو مجبوری میں چلتے دیکھ لیتا ہوں
میں بس کی کھڑکیوں سے یہ تماشے دیکھ لیتا ہوں
—
اشکِ رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو
اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو
—
دیتی نہیں اماں جو زمیں آسماں تو ہے
کہنے کو اپنے دل سے کوئی داستاں تو ہے
—
اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
—
زوالِ عصر ہے کوفے میں اور گداگر ہیں
کھلا نہیں کوئی در بابِ التجا کے سوا
—
اس سمت مجھ کو یار نے جانے نہیں دیا
اک اور شہر یار میں آنے نہیں دیا
—
امتحاں ہم نے دیئے اس دارِ فانی میں بہت
رنج کھینچے ہم نے اپنی لا مکانی میں بہت
—
تھکن سفر کی بدن شل سا کر گئی ہے منیرؔ
برا کیا جو سفر میں قیام کر بیٹھا
══━━━━✥•••✺◈✺•••✥━━━━══
منیرؔ نیازی
بشکریہ اعجاز زیڈ ایچ*
آپ منیرؔ نیازی کی کتب پنجند۔کام کے اس لنک سے پڑھ سکتے ہیں۔