آج – 29؍اپریل 1849
بہار کے ممتاز مابعد کلاسیکی شاعر، حضرتِ داغ کے شاگرد اور معروف شاعر ” مبارکؔ عظیم آبادی صاحب “ کا یومِ ولادت…
مبارک عظیم آبادی، نام مبارک حسین ، ڈاکٹر ، مبارکؔ تخلص تھا۔ ۲۹؍اپریل ۱۸۴۹ء کو قصبہ تاج پور ،سابق سب ڈویژن دربھنگہ(بہار) میں پیدا ہوئے۔فارسی کی درسی کتابوں کے بعد عربی کی صرف ونحو پڑھی۔ انٹرنس تک انگریزی بھی پڑھی۔ طب اور ہومیوپیتھی کا بھی مطالعہ کیا اور باضابطہ مطب کو روزی کا ذریعہ بنایا۔ شعرو سخن کی طرف اسکول ہی کے زمانے سے طبیعت راغب تھی۔ وہ پہلے حسن سہسرامی کو اپنا کلام دکھاتے رہے۔ اس کے بعد پریشان عظیم آبادی سے اردو اور فارسی میں اصلاح لیتے رہے۔ ۱۸۹۲ء میں حضرتِ داغؔ کے شاگرد ہوئے اور تاحیات استاد سے مشورہ کرتے رہے۔ آخر عمر میں مبارک عظیم آبادی مالی پریشانیوں میں بری طرح پھنس گئے تھے۔ ہند سرکار کی طرف سے ان کی علمی صلاحیت اور شاعری کی شہرت کی وجہ سے ایک سو روپیہ ماہانہ اعزازی وظیفہ تاحیات ملتا رہا۔ وہ ۱۲؍اپریل۱۹۵۸ء کوانتقال کرگئے۔ ان کا منتخب اردو دیوان ’’جلوۂ داغ“ ۱۹۵۱ء میں شائع ہوا۔ اس مجموعے سے قبل ۱۹۳۵ء میں ’’مرقع سخن ‘‘ (حصہ اول ودوم) کی اشاعت ہوئی۔ اگست ۱۹۹۹ء میں کلیاتِ مبارک عظیم آبادی بھی چھپ گئی ہے۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد اول)،محمد شمس الحق،صفحہ:253
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✧◉➻══════════════➻◉✧
ممتاز شاعر مبارکؔ عظیم آبادی کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…
آنے میں کبھی آپ سے جلدی نہیں ہوتی
جانے میں کبھی آپ توقف نہیں کرتے
—
اثر ہو یا نہ ہو واعظ بیاں میں
مگر چلتی تو ہے تیری زباں خوب
—
اس بھری محفل میں ہم سے داورِ محشر نہ پوچھ
ہم کہیں گے تجھ سے اپنی داستاں سب سے الگ
—
اک مرا سر کہ قدم بوسی کی حسرت اس کو
اک تری زلف کہ قدموں سے لگی رہتی ہے
—
اک تری بات کہ جس بات کی تردید محال
اک مرا خواب کہ جس خواب کی تعبیر نہیں
—
بکھری ہوئی ہے یوں مری وحشت کی داستاں
دامن کدھر کدھر ہے گریباں کہاں کہاں
—
بیش و کم کا شکوہ ساقی سے مبارکؔ کفر تھا
دور میں سب کے بقدر ظرف پیمانہ رہا
—
تری ادا کی قسم ہے تری ادا کے سوا
پسند اور کسی کی ہمیں ادا نہ ہوئی
—
تیری بخشش کے بھروسے پہ خطائیں کی ہیں
تیری رحمت کے سہارے نے گنہ گار کیا
—
جاں نثارانِ محبت میں نہ ہو اپنا شمار
امتحاں اس لیے ظالم نے ہمارا نہ کیا
—
جو دل نشیں ہو کسی کے تو اس کا کیا کہنا
جگہ نصیب سے ملتی ہے دل کے گوشوں میں
—
جو نگاہ ناز کا بسمل نہیں
دل نہیں وہ دل نہیں وہ دل نہیں
—
دل لگاتے ہی تو کہہ دیتی ہیں آنکھیں سب کچھ
ایسے کاموں کے بھی آغاز کہیں چھپتے ہیں
—
دن بھی ہے رات بھی ہے صبح بھی ہے شام بھی ہے
اتنے وقتوں میں کوئی وقت ملاقات بھی ہے
—
شکست توبہ کی تمہید ہے تری توبہ
زباں پہ توبہ مبارکؔ نگاہ ساغر پر
—
قبول ہو کہ نہ ہو سجدہ و سلام اپنا
تمہارے بندے ہیں ہم بندگی ہے کام اپنا
—
لے چلا پھر مجھے دلِ یار دلِ آزار کے پاس
اب کے چھوڑ آؤں گا ظالم کو ستم گار کے پاس
—
مری خاک بھی اڑے گی با ادب تری گلی میں
ترے آستاں سے اونچا نہ مرا غبار ہوگا
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
مبارکؔ عظیم آبادی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ