آج – 21؍اپریل 1951
اہم ترین ما بعد جدید پاکستانی شاعروں میں سے ایک، اپنے انفرادی شعری تجربے کے لیے معروف شاعر” جمالؔ احسانی صاحب “ کا یومِ ولادت…
نام محمّد جمال عثمانی اور تخلص جمالؔ تھا۔ ۲۱؍اپریل ۱۹۵۱ء کو سرگودھا میں پیدا ہوئے۔ ان کا آبائی وطن پانی پت ہے۔ جمال احسانی نے بی اے تک تعلیم حاصل کی۔ تعلیم کے بعد ذریعہ معاش کی تلاش میں کراچی چلے آئے اور محکمۂ اطلاعات ونشریات ،سندھ سے منسلک ہوگئے۔اس کے علاوہ جمال احسانی روزنامہ ’’حریت‘، روزنامہ’’سویرا‘‘ اور ’’اظہار‘‘ کراچی سے بھی وابستہ رہے جہاں انھوں نے معاون مدیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ اپنا پرچہ ’’رازدار‘‘ بھی نکالتے رہے۔وہ معاشی طور پر بہت پریشاں رہے۔ ۱۰؍فروری۱۹۹۸ء کو اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:
’’ستارۂ سفر‘‘، ’’رات کے جاگے ہوئے‘‘۔ تیسرا مجموعہ ’’تارے کو مہتاب کیا‘‘ ، زیر ترتیب تھا کہ ان کا انتقال ہوگیا۔۱۹۸۱ء میں سوہنی دھرتی رائٹرزگلڈ ایوارڈ ملا۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:407
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
معروف شاعر جمالؔ احسانی کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…
چراغ بجھتے چلے جا رہے ہیں سلسلہ وار
میں خود کو دیکھ رہا ہوں فسانہ ہوتے ہوئے
—
اسی مقام پہ کل مجھ کو دیکھ کر تنہا
بہت اداس ہوئے پھول بیچنے والے
—
اور اب یہ چاہتا ہوں کوئی غم بٹائے مرا
میں اپنی مٹی کبھی آپ ڈھونے والا تھا
—
اک سفر میں کوئی دو بار نہیں لٹ سکتا
اب دوبارہ تری چاہت نہیں کی جا سکتی
—
صبح آتا ہوں یہاں اور شام ہو جانے کے بعد
لوٹ جاتا ہوں میں گھر ناکام ہو جانے کے بعد
—
ترے نہ آنے سے دل بھی نہیں دکھا شاید
وگرنہ کیا میں سرِ شام سونے والا تھا
—
تمام رات نہایا تھا شہر بارش میں
وہ رنگ اتر ہی گئے جو اترنے والے تھے
—
جمال ؔ ہر شہر سے ہے پیارا وہ شہر مجھ کو
جہاں سے دیکھا تھا پہلی بار آسمان میں نے
—
جو پہلے روز سے دو آنگنوں میں تھا حائل
وہ فاصلہ تو زمین آسمان میں بھی نہ تھا
—
ختم ہونے کو ہیں اشکوں کے ذخیرے بھی جمالؔ
روئے کب تک کوئی اس شہر کی ویرانی پر
—
دنیا پسند آنے لگی دل کو اب بہت
سمجھو کہ اب یہ باغ بھی مرجھانے والا ہے
—
خود جسے محنت مشقت سے بناتا ہوں جمالؔ
چھوڑ دیتا ہوں وہ رستہ عام ہو جانے کے بعد
—
قرار جی کو مرے جس کے نام سے آیا
وہ آیا بھی تو کسی اور کام سے آیا
—
کسی بھی وقت بدل سکتا ہے لمحہ کوئی
اس قدر خوش بھی نہ ہو میری پریشانی پر
—
ہارنے والوں نے اس رخ سے بھی سوچا ہوگا
سر کٹانا ہے تو ہتھیار نہ ڈالے جائیں
—
ہزار طرح کے تھے رنج پچھلے موسم میں
پر اتنا تھا کہ کوئی ساتھ رونے والا تھا
—
ہم ایسے بے ہنروں میں ہے جو سلیقۂ زیست
ترے دیار میں پل بھر قیام سے آیا
—
یاد رکھنا ہی محبت میں نہیں ہے سب کچھ
بھول جانا بھی بڑی بات ہوا کرتی ہے
—
یہ غم نہیں ہے کہ ہم دونوں ایک ہو نہ سکے
یہ رنج ہے کہ کوئی درمیان میں بھی نہ تھا
—
یہ کون آنے جانے لگا اس گلی میں اب
یہ کون میری داستاں دہرانے والا ہے
—
وہ لوگ میرے بہت پیار کرنے والے تھے
گزر گئے ہیں جو موسم گزرنے والے تھے
—
میں تو مر جاؤں اسی وقت اگر مجھ کو جمالؔ
عشق سے ہاتھ کسی آن اٹھانا پڑ جائے
●•●┄─┅━━━★•••★━━━┅─●•●
جمال ؔ احسانی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ