آج – 15؍اپریل 2004
اہم ترین جدید شاعروں میں شامل، اپنے نوکلاسیکی لہجے کے لیے معروف شاعر” عرفانؔ صدیقی صاحب “ کا یومِ وفات…
نام عرفا ن صدیقی، ٨؍جنوری ۱۹۳۹ء کو بدایوں میں پیدا ہوئے۔ بریلی کالج، آگرہ یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کی۔۱۹۶۲ء میں وزارت اطلاعات ونشریات کی مرکزی اطلاعاتی سروس سے وابستہ ہوگئے۔ ملازمت کے سلسلے میں دلی، لکھنؤ وغیر ہ قیام رہا۔یہ نیاز بدایونی کے چھوٹے بھائی تھے۔۔ ا ن کی تصانیف کے نام یہ ہیں:
’کینوس‘، ’عشق نامہ‘، ’شب درمیاں‘، ’سات سماوات‘ (مجموعہ شاعری)۔ اس کے علاوہ دو تین کتابیں ابلاغ و ترسیل وغیرہ سے متعلق موضوعات پر شائع ہوئیں۔
عرفان صدیقی، ١٥؍اپریل ٢٠٠٤ء کو لکھنؤ میں انتقال کر گئے ۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
معروف شاعر عرفانؔ صدیقی کے یوم وفات پر منتخب اشعار بطور خراجِ عقیدت…
بدن میں جیسے لہو تازیانہ ہو گیا ہے
اسے گلے سے لگائے زمانہ ہو گیا ہے
—
اٹھو یہ منظر شبِ تاب دیکھنے کے لیے
کہ نیند شرط نہیں خواب دیکھنے کے لیے
—
رات کو جیت تو پاتا نہیں لیکن یہ چراغ
کم سے کم رات کا نقصان بہت کرتا ہے
—
بدن کے دونوں کناروں سے جل رہا ہوں میں
کہ چھو رہا ہوں تجھے اور پگھل رہا ہوں میں
—
ہوشیاری دلِ نادان بہت کرتا ہے
رنج کم سہتا ہے اعلان بہت کرتا ہے
—
عجب حریف تھا میرے ہی ساتھ ڈوب گیا
مرے سفینے کو غرقاب دیکھنے کے لیے
—
سر اگر سر ہے تو نیزوں سے شکایت کیسی
دل اگر دل ہے تو دریا سے بڑا ہونا ہے
—
میرے ہونے میں کسی طور سے شامل ہو جاؤ
تم مسیحا نہیں ہوتے ہو تو قاتل ہو جاؤ
—
اپنے کس کام میں لائے گا بتاتا بھی نہیں
ہم کو اوروں پہ گنوانا بھی نہیں چاہتا ہے
—
ہمیں تو خیر بکھرنا ہی تھا کبھی نہ کبھی
ہوائے تازہ کا جھونکا بہانہ ہو گیا ہے
—
ایک میں ہوں کہ اس آشوبِ نوا میں چپ ہوں
ورنہ دنیا مرے زخموں کی زباں بولتی ہے
—
کچھ عشق کے نصاب میں کمزور ہم بھی ہیں
کچھ پرچۂ سوال بھی آسان چاہیئے
—
اداس خشک لبوں پر لرز رہا ہوگا
وہ ایک بوسہ جو اب تک مری جبیں پہ نہیں
—
شعلۂ عشق بجھانا بھی نہیں چاہتا ہے
وہ مگر خود کو جلانا بھی نہیں چاہتا ہے
—
ہم کون شناور تھے کہ یوں پار اترتے
سوکھے ہوئے ہونٹوں کی دعا لے گئی ہم کو
—
اے لہو میں تجھے مقتل سے کہاں لے جاؤں
اپنے منظر ہی میں ہر رنگ بھلا لگتا ہے
—
وہ جو اک شرط تھی وحشت کی اٹھا دی گئی کیا
میری بستی کسی صحرا میں بسا دی گئی کیا
—
خدا کرے صفِ سر دادگاں نہ ہو خالی
جو میں گروں تو کوئی دوسرا نکل آئے
—
یہ ہم نے بھی سنا ہے عالم اسباب ہے دنیا
یہاں پھر بھی بہت کچھ بے سبب ہوتا ہی رہتا ہے
—
سر تسلیم ہے خم اذنِ عقوبت کے بغیر
ہم تو سرکار کے مداح ہیں خلعت کے بغیر.
—
اس کی تمثال کو پانے میں زمانے لگ جائیں
ہم اگر آئینہ خانوں ہی میں جانے لگ جائیں
—
ناچیز بھی خوباں سے ملاقات میں گم ہے
مجذوب ذرا سیر مقامات میں گم ہے
◆ ▬▬▬▬▬▬✪ ▬▬▬▬▬▬ ◆
عرفان صدّیقی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ