پیدائش: 25 فروری 1877ء
وفات: 14 ستمبر 1945ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد دین فوق اردو زبان کے مشہور شاعر، نقاد، اِنشاء پرداز، اخبار نویس اور مؤرخ تھے۔ فوق تاریخ کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں۔ اُن کی متعدد کتب ہائے تاریخ اُن کی وجہ شہرت ہے، علاوہ ازیں وہ بطور صحافی لاہور کی مشہور شخصیات میں سے تھے۔ فوق کو کشمیر کا پہلا نوجوان صحافی ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
پیدائش و خاندان
محمد دین فوق 25 فروری 1877ء کو کوٹلی ہرنرائن میں پیدا ہوئے، جو سیالکوٹ سے جنوب کی جانب دو تین کوس کے فاصلے پر واقع ہے۔ پیدائشی نام محمد دیندار تھا مگر بعد ازاں محمد دین فوق کی نسبت سے مشہور ہوئے۔ فوق کے پردادا حسن ڈار کشمیر سے ہجرت کر کے مہاراجا رنجیت سنگھ کے عہدِ حکومت میں پنجاب آئے اور سیالکوٹ کے موضع گھڑتل میں آباد ہو گئے تھے۔
ابتدائی حالات و تعلیم
فوق نے ابتدائی تعلیم موضع گھڑتل، جامکے، گوجرانوالہ اور لاہور میں حاصل کی مگر وہ مڈل کی تعلیم سے مزید آگے نہ بڑھ پائے۔ 1894ء میں فوق اپنے والد کی نگرانی میں پٹوار خانہ کا کام سیکھنے لگے اور چند مہینوں بعد وہ جموں چونگی میں اور چند مہینے فیصل آباد میں گزارے۔ بروز جمعہ 15 شعبان 1313ھ/ 31 جنوری 1896ء کو فوق قریباً 19 سال کی عمر میں لاہور کے مشہور پیسہ اخبار میں بطور ملازم بھرتی ہوئے۔ تقریباً چار سال تک لاہور میں مقیم رہتے ہوئے اخبار نویسی میں اچھی خاصی مشق حاصل کر لی۔
فوق بطور صحافی
1896ء میں فوق لاہور کے پیسہ اخبار سے وابستہ ہوئے اور تقریباً چار پانچ سالوں میں وہ اخبار نویسی میں مہارت حاصل کر چکے تھے۔ 1901ء میں فوق نے لاہور سے اپنی نگرانی میں ایک ہفت روزہ اخبار پنجہ فولاد جاری کیا جو 1906ء تک مسلسل شائع ہوتا رہا۔ فوق نے کشمیر کے مشہور مبلغ اسلام خواجہ کمال الدین کے ساتھ مل کر کشمیری برادری کی تنظیم اور اِصلاح کے واسطے ماہنامہ مخزن جاری کیا جو 1905ء تک شائع ہوتا رہا۔ فوق نے 1906ء میں ماہنامہ کشمیری میگزین جاری کیا جو پندرہ سال بعد ماہِ جمادی الاول 1339ھ/ جنوری 1921ء میں ہفت روزہ ہو گیا۔ ماہنامہ کشمیری میگزین 1934ء تک کشمیر اور کشمیریوں کی علمی، سیاسی اور سماجی اصلاحات کرتا رہا۔
خدمات
فوق کشمیری صحافیوں میں خشتِ اول کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اُنہوں نے کشمیر کے ہر پسماندہ علاقہ کے لوگوں کو تعلیم کے میدان میں ترقی کرنے کے راز و گر بتلائے۔ جو خاندان غربت و افلاس اور جہالت کی وجہ سے احساسِ کمتری کا شکار ہوتے تھے، اُنہیں بزرگانِ سلف کی روایات یاد دلا کر جرات مندانہ اور باحوصلہ بنادیا۔ برٹش راج کے زمانہ میں کشمیری عام طور پر فوج میں بھرتی کرنے کے قابل نہیں سمجھے جاتے تھے، فوق نے کشمیریوں کو اِس قابل بنادیا کہ چند ہی سالوں میں کشمیریوں کو برٹش راج کی فوج میں خدمات کے واسطے اہل سمجھا جانے لگا۔ کشمیریوں کے بنیادی انسانی حقوق کے لیے بھی فوق سرگرمِ عمل رہے، بیگار جیسے مظالم کے خلاف اُنہوں نے صدائے احتجاج بلند کی۔ برٹش راج کے زمانہ میں کشمیریوں کے حقوق کے واسطے سب سے پہلے صدائے احتحاج بلند کرنے والے فوق ہی تھے۔
1912ء سے قبل ریاست جموں و کشمیر میں کوئی بھی شکص محکمہ امداد باہمی اور قانونِ انتقالِ اراضی کے نام تک سے واقف نہ تھا، فوق نے پنجاب کی طرح زمیندارہ سوسائٹی کا اجرا اور قانونِ انتقالِ اراضی کے نفاذ کے لیے آواز بلند کی۔ اِس کے نتیجے میں ریاست جموں و کشمیر کے باسیوں کو یہ دونوں سہولتیں بہت جلد میسر ہوگئیں۔ فوق علامہ محمد اقبال سے حد درجہ تک متاثر تھے، علامہ محمد اقبال کی تحریک سے متاثر ہو کر فوق نے رسالہ طریقت اور ماہنامہ نظام جاری کیا، تاکہ تصوف کی خدمت کی جا سکے۔ سجادہ نشینوں کی اصلاح کے لیے فوق نے قلمی جہاد کو اپنایا۔ گویا فوق کشمیر میں حقوق کے واسطے صدائے احتجاج بلند کرنے والے اور حقوق کی پاسداری پر عمل کروانے والے پہلے باقاعدہ صحافی تھے۔
فوق بحیثیت مؤرخ
فوق کشمیر کے مؤرخین میں شمار کیے جاتے ہیں، اِس صنف خاص میں بھی اُن کا اندازِ تحریر نمایاں اور منفرد رہا۔ بحیثیت مؤرخ فوق نے تاریخ کا کوئی ایسا گوشہ یا پہلو نہیں چھوڑا جس پر اُن کے قلم سے کچھ تحریر نہ ہوا ہو۔ عہدِ شباب سے ضعیفی تک مسلسل اُن کا قلم رواں رہا اور مختلف موضوعات پر اُن کی تصانیف کی تعداد 95 ہے جبکہ ڈاکٹر رتن لعل ہنگلو کی تحقیق کے مطابق فوق کی تصانیف کی تعداد 112 ہے۔
فوق کی کئی کتب ہائے تاریخ اُن کی زندگی میں ہی منظر عام پر آئیں جن میں مندرجہ ذیل قابل ذکر ہیں:
تاریخ کشمیر مکمل، 3 جلد۔
راہنمائے کشمیر ۔
تاریخ اقوام کشمیر، 3 جلد۔
مشاہیر کشمیر۔
خواتین کشمیر۔
کشمیر کی رانیاں۔
شبابِ کشمیر۔
حکایاتِ کشمیر۔
کشمیری زمیندار۔
تاریخ بڈشاہی۔ سلطان زین العابدین کی سوانح اور حالات پر مبنی ہے۔
تاریخ اقوام پونچھ، 2 جلد۔
روایاتِ اسلام۔
تاریخ حریت اسلام۔
تاریخ سیالکوٹ و سونحات علامہ عبد الحکیم سیالکوٹی۔
'تذکرۃ الصالحین۔
سوانح حضرت علی بن عثمان الہجویری المعروف بہ سوانح حضرت داتا گنج بخش ہجویری۔
مآثر لاہور۔
یادرِ رفتگان، یعنی تذکرہ صوفیائے لاہور۔
اخبار نویسوں کے حالات۔
تذکرہ علما والمشائخ۔
لاہور عہد مغلیہ میں: فوق کی یہ تصنیف فی زمانہ بھی مشہور ہے۔ اِس کا تعلیقہ شالامار باغ بھی شامل ہے جو 1924ء میں 97 صفحات پر شائع ہوا تھا۔
تاریخ کا روشن پہلو۔
بتانِ حرم۔
کلامِ فوق۔
نغمہ و گلزار: یہ شعری مجموعہ ہے۔
وفات
موسمِ گرماء 1945ء میں فوق کشمیر گئے ہوئے تھے کہ وہاں بیمار ہو گئے۔ علاج معالجہ سے صحت یابی نہ ہوئی تو واپس لاہور چلے آئے۔ علالت بڑھتی گئی اور بروز جمعہ 6 شوال 1364ھ/ 14 ستمبر 1945ء/ 6 شوال 1364ھ بروز جمعہ 68 سال 7 ماہ شمسی کی عمر میں لاہور میں وفات پائی۔ کی تدفین قبرستان میانی لاہور میں کی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترتیب و انتخاب و پیشکش
نیرہ نور خالد