آرزوؔ کا نام سید انور حسین تھا ۔ ان کی پیدائش 17 فروری 1873 کو لکھنو کے ایک متمول خاندان میں ہوئی تھی ۔ ان کے والد میر ذاکر حسین یاس بھی شاعر تھے اس لئے انور حسین بچپن سے ہی شاعری کی جانب راغب ہو گئے اور شاگردی قادر الکلام شاعر جلال لکھنوی کی اختیار کی ۔
علامہ آرزو لکھنوی کی شخصیت ہشت پہل تھی ۔ انہوں نے صرف غزل گوئی نہیں کی ان کو شاعری کی تمام اصناف غزل گوئی ، مرثیہ گوئی ، نعت گوئی ، سلام گوئی ، قصیدہ گوئی ، مثنوی نگاری ، گیت ، رباعی اور تاریخ گوئی پر بھی درک حاصل تھا ۔ اس کے علاوہ وہ نثر پر بھی زبردست قدرت رکھتے تھے ۔ جہاں انہوں نے اسٹیج ڈرامے لکھے اور بر جستہ مکالموں کی تکمیل کی وہیں انہوں نے دو درجن سے زائد فلموں کے گانے اور مکالمے بھی لکھے تھے ۔
ان فلموں کے گانے اپنے زمانے میں بے حد مقبول ہوئے تھے ۔
دنیا میں ہوں دنیا کا طلبگار نہیں ہوں
بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں
6 جنوری سنہ 1951کو آرزو ایک مشاعرے میں شرکت کی غرض سے کراچی گئے تھے ۔ ریڈیو پاکستان کے کنٹرولر سید ذوالفقار علی بخاری نے ان کی خدمات حاصل کرلیں۔ مگر پاکستان میں ان کا قیام بہت ہی مختصر رہا ۔ 16 اپریل سنہ 1951کو کراچی میں ان کا انتقال ہو گیا اور وہیں ان کی تدفین عمل میں آئی ۔
علامہ آرزو لکھنوی بچپن سے ہی قادر الکلام شاعر تھے ۔ کم عمری میں ہی ایک استاد نے ان کو ایک مصرعہ طرح دے کر چیلنج کیا کہ اس طرح میں زلف کی رعایت کے بغیر دو د ن کے اندر ایک شعر بھی کہہ دو تو ہم تمہیں شاعر مان لیں گے ۔ انہوں نے دو دن تو کیا محض چند گھنٹوں میں گیارہ اشعار کی غزل کہہ کر سنا دی اور سب عش عش کر اٹھے ۔
رقیب اپنے بہت ہیں یہ اس کی ہے تعبیر
کہ روز آکے ڈراتے ہیں ہم کو خواب میں سانپ
ہمارا درد جگر آسماں کا تیر شہاب
مقابلے کو چلے سانپ کے جواب میں سانپ
علامہ آرزو لکھنوی کے کلام میں ندرت ہے ، اس کے علاوہ انہوں نے اردو شاعری کو اپنی زمین سے جوڑنے کی کوشش کی ۔ اس لئے ان کی شاعری اس سر زمین سے پیوست نظر آتی ہے ۔ پروفیسر آل احمد سرور فرماتے ہیں:‘غزل کی زبان کو بول چال کی زبان سے قریب لا کر شاعر نے یہ واضح کیا ہے کہ شاعر کی بولی دنیا والوں کی بولی سے الگ نہیں ہو تی اور نہ وہ قدیم بحروں کی قید میں ہمیشہ اسیر رہتی ہے ۔ اسی لےے آرزو کے اشعار میں سادگی اور پر کاری ہے ۔’
ان کی غزلوں کے کچھ اشعار:
پھیر تو لیں گے چھری بھی زخم بھی کھائیں گے ہم
یوں نہ موت آئی تو پھر بے موت مر جائیں گے ہم
داغ اک سینے میں ہے اب دل کی جا یاد دش بخیر
ساتھ کیا لائے تھے کیا دنیا سے لے جائیں گے ہم
وقت رخصت مجھ سے دو دو کام ہو سکتے نہیں
ا ن کو روکیں گے کہ اپنے دل کو سمجھائیں گے ہم
۔۔۔۔۔۔۔
پھٹے دامن میں شرح حال چشم خوں فشاں رکھ دی
ورق تھا ایک جس پر لکھ کے ساری داستاں رکھ دی
وہ تھے پرسان حال سوز دل ہم نے زباں رکھ دی
کہ جلتی شمع لے کر اپنے ان کے درمیاں رکھ دی
کیا پھر تم کو روتا دیکھ کر دیدار کا وعدہ
پھر اک بہتے ہوئے پانی میں بنیاد مکاں رکھ دی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اک منتظر وعدہ جا کر کہیں کیا بیٹھے
گھبرایا جو دل گھر میں دروازے پہ آبیٹھے
اک اپنے فغاںکش سے اللہ یہ بے دردی
سب کہتے ہیں ہاں ہاں ناوک وہ لگا بیٹھے
۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کا انتظار کون کرے
زیست کا اعتبار کون کرے
ہاتھ بے چین ہے گریباں پاس
انتظار بہار کون کرے
غم دل سے ہے جب نہیں فرصت
تو غم روزگار کون کرے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اظہار الم کے لئے پہلو نکل آئے
نالوں کو کیا ضبط تو آنسو نکل آئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منتخب کلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیوں کسی رہرو سے پوچھوں اپنی منزل کا پتا
موج دریا خود لگ لیتی ہے ساحل کا پتا
ہے نشان لیلٰی مقصود محمل کا پتا
دل رنا ہاتھ آ گیا پایا جہاں دل کا پتا
راہ الفت میں سمجھ لو دل کو گونگا رہ نما
ساتھ ہے اور دے نہیں سکتا ہے منزل کا پتا
کہتا ہے ناصح کہ واپس جاؤ اور میں سادہ لوح
پوچھتا ہوں خود اسی سے کوۓ قاتل کا پتا
راہبر رہزن نہ بن جاۓ کہیں اس سوچ میں
چپ کھڑا ہوں بھول کر رستے میں منزل کا پتا
آئی اک آواز تیر اور نکلی دل سے اف
پھر نہ قاتل کا نشاں پایا نہ بسمل کا پتا
بانکی چتون والے محشر میں ہزاروں ہیں تو ہوں
مل ہی جاۓ گا کسی صورت سے قاتل کا پتا
اس جگہ بسمل نے دم توڑا جہاں کی خاک تھی
یوں لگاتے ہیں لگانے والے منزل کا پتا
پوچھنے والے نے یہ پوچھا کہ کیوں بیدل ہو کیوں
اور مجھ کو مل گیا کھوۓ ہوۓ دل کا پتا
موجیں ٹکرائی ہوئیں دشمن بھی نکلیں دوست بھی
پیچھے کشتی کو دھکیلا دے کے ساحل کا پتا
رہ گیا ٹوٹ کر زخم جگر میں تیر ناز
اب لگا لینا نہیں دشوار قاتل کا پتا
سوختہ پروانے کشتہ شمع فرش داغ دار
دے رہے ہیں رات کی گرمئ محفل کا پتا
میں وفا کیش آرزوؔ اور وہ وفا نا آشنا
پڑ گیا مشکل میں پا کر اپنی مشکل کا پتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کیا لکھتا جسے انکار کرتے بھی حجاب آیا
جواب خط نہیں آیا تو یہ سمجھو جواب آیا
قریب صبح یہ کہہ کر اجل نے آنکھ جھپکا دی
ارے او ہجر کے مارے تجھے اب تک نہ خواب آیا
دل اس آواز کے صدقے یہ مشکل میں کہا کس نے
نہ گھبرانا نہ گھبرانا میں آیا اور شتاب آیا
کوئی قتال صورت دیکھ لی مرنے لگے اس پر
یہ موت اک خوشنما پردے میں آئی یا شتاب آیا
پرانے عہد ٹوٹے ہو گۓ پیماں نۓ قائم
بنا دی اس نے دنیا دوسری جو انقلاب آیا
گزر گاہ محبت بن گئی اک مستقل بستی
لگا کر آگ آیا گھر کو جو خانہ خراب آیا
معمہ بن گیا راز محبت آرزوؔ یوں ہی
وہ مجھ سے پوچھتے جھجھکے مجھے کہتے حجاب آیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ سر بام کب نہیں آتا
جب میں ہوتا ہوں تب نہیں آتا
بہر تسکیں وہ کب نہیں آتا
اعتبار آہ اب نہیں آتا
چپ ہے شکوؤں کی ایک بند کتاب
اس سے کہنے کا ڈھب نہیں آتا
ان کے آگے بھی دل کو چین نہیں
بے ادب کو ادب نہیں آتا
زخم سے کم نہیں ہے اس کی ہنسی
جس کو رونا بھی اب نہیں آتا
منہ کو آ جاتا ہے جگر غم سے
اور گلہ تا بہ لب نہیں آتا
بھولی باتوں پہ تیری دل کو یقیں
پہلے آتا تھا اب نہیں آتا
دکھ وہ دیتا ہے اس پہ ہے یہ حال
لینے جاتا ہوں جب نہیں آتا
آرزوؔ بے اثر محبت چھوڑ
کیوں کرے کام جب نہیں آتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوّل شب وہ بزم کی رونق شمع بھی تھی پروانہ بھی
رات کے آخر ہوتے ہوتے ختم تھا یہ افسانہ بھی
قید کو توڑ کے نکلا جب میں اُٹھ کے بگولے ساتھ ہوئے
دشتِ عدم تک جنگل جنگل بھاگ چلا ویرانہ بھی
ہاتھ سے کس نے ساغر پٹکا موسم کی بے کیفی پر
اتنا برسا ٹوٹ کے بادل ڈوب چلا مے خانہ بھی
ایک لگی کے دو ہیں اثر اور دونوں حسبِ مراتب ہیں
لو جو لگائے شمع کھڑی ہے ، رقص میں ہے پروانہ بھی
حسن و عشق کی لاگ میں اکثر چھیڑ ادھر سے ہوتی ہے
شمع کا شعلہ جب لہرایا اُڑ کے چلا پروانہ بھی
دونوں جولاں گاہ جنوں ہیں ، بستی کیا ویرانہ کیا
اٹھ کے چلا جب کوئی بگولا دوڑ پڑا ویرانہ بھی
دورِ مسرّت آرزو اپنا کیسا زلزلہ آگیں تھا
ہاتھ سے منہ تک آتے آتے چھُوٹ پڑا پیمانہ بھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﮨﻢ ﺁﺝ ﮐﮭﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺍﮎ ﺗﯿﺮ ﺍﻣﺘﺤﺎﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ
ﮐﮧ ﻭﻗﻒ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﮯ ﺩﻝ ﻧﺎﺯ ﺟﺎﮞ ﺳﺘﺎﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ
ﺟﻼ ﮐﮯ ﺩﻝ ﮐﻮ ﻟﭙﮏ ﺳﮯ ﮈﺭﻭ ﻧﮧ ﺷﻌﻠﮯ ﮐﯽ
ﺯﺑﺎﮞ ﺩﺭﺍﺯ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﻓﻐﺎﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ
ﺍﺳﯽ ﭼﻤﻦ ﻣﯿﮟ ﮐﮧ ﻭﺳﻌﺖ ﮨﮯ ﺟﺲ ﮐﯽ ﻧﺎﻣﺤﺪﻭﺩ
ﻧﮩﯿﮟ ﭘﻨﺎﮦ ﮐﯽ ﺟﺎ ﺍﯾﮏ ﺁﺷﯿﺎﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ
ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺿﺒﻂ ﻧﮯ ﺩﻋﻮﯼٰ ﺭﺍﺯﺩﺍﺭﺉ ﻋﺸﻖ
ﺍﭨﮭﺎ ﮨﮯ ﺩﺭﺩ ﮐﻠﯿﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﻣﺘﺤﺎﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ
ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﮈﮬﻮﻧﮉﮮ ﻧﮧ ﻣﻠﺘﺎ ﻧﻈﺮ ﮐﯽ ﭼﻮﭦ ﮐﺎ ﻧﯿﻞ
ﻧﮧ ﮨﻮﺗﺎ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﯾﺪﺍ ﺍﮔﺮ ﻧﺸﺎﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ
ﺳﻮﺍﺋﮯ ﺩﻝ ﮐﮯ ﺟﻮ ﺳﺮﻣﺎﯾۂ ﺩﻭ ﻋﺎﻟﻢ ﮨﮯ
ﻧﮧ ﮐﭽﮫ ﯾﮩﺎﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮨﮯ ﻧﮧ ﮐﭽﮫ ﻭﮨﺎﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ
ﻧﮧ ﻋﺸﻖ ﺟﺮﻡ ﮨﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮧ ﺩﻝ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ﺭﺍﺯ
ﺑﺮﺍ ﮨﻮ ﺷﺮﻡ ﮐﺎ ﺍﮎ ﻗﻔﻞ ﮨﮯ ﺯﺑﺎﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ
ﺧﻼﻑ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﮨﯽ ﻭﺿﻊ ﺳﺎﺯ ﻭ ﺑﺮﮒ ﭼﻤﻦ
ﻗﻔﺲ ﺑﻨﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺗﻨﮑﮯ ﺗﮭﮯ ﺁﺷﯿﺎﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ
ﻟﺮﺯ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﻓﻠﮏ ﺁﺭﺯﻭؔ ﮐﮧ ﺁﮦ ﺭﺳﺎ
ﭼﻠﯽ ﮨﮯ ﺗﯿﻎ ﺑﮑﻒ ﻓﺘﺢ ﮨﻔﺖ ﺧﻮﺍﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ خالد محمود