آج – 8؍اپریل 1997
افسانہ نگار، نقاد اور ممتاز و معروف شاعر” عرشؔ صدیقی صاحب “ کا یومِ وفات…
نام ارشاد الرحمن اور تخلص عرشؔ تھا۔ ۲۱؍جنوری ۱۹۲۷ء کو گورداس پور (مشرقی پنجاب) میں پیدا ہوئے۔ ایم اے (انگریزی)گورنمنٹ کالج، لاہور سے کیا۔ پی ایچ ڈی ورلڈ یونیورسٹی اری زونا(امریکہ) سے کیا۔ پروفیسر شعبہ انگریزی گورنمنٹ کالج ملتان، چئیرمین پروفیسر شعبہ انگریزی بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان اور رجسٹرار بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے عہدوں پر فائز رہے۔ ۸؍اپریل ۱۹۹۷ء کو ملتان میں انتقال کرگئے۔ شاعری کے علاوہ افسانہ اور تنقید بھی لکھتے تھے۔ ان کی تصانیف کے چند نام یہ ہیں:
’دیدۂ یعقوب‘، ’محبت لفظ تھا میرا‘، ’ہرموج ہوا تیز‘ (شعری مجموعے)، ’باہر کفن سے پاؤں‘ (افسانے) پر آدم جی ایوارڈ ملا۔ ’تکوین‘، ’محاکمات‘، ’شعور‘، ’سائنسی شعور اور ہم‘ ( تنقید)۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:200
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✧◉➻══════════════➻◉✧
معروف شاعر عرشؔ صدیقی کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…
اٹھتی تو ہے سو بار پہ مجھ تک نہیں آتی
اس شہر میں چلتی ہے ہوا سہمی ہوئی سی
—
اک تیری بے رخی سے زمانہ خفا ہوا
اے سنگِ دل تجھے بھی خبر ہے کہ کیا ہوا
—
ایک لمحے کو تم ملے تھے مگر
عمر بھر دل کو ہم مسلتے رہے
—
بس یوں ہی تنہا رہوں گا اس سفر میں عمر بھر
جس طرف کوئی نہیں جاتا ادھر جاتا ہوں میں
—
دیکھ رہ جائے نہ تو خواہش کے گنبد میں اسیر
گھر بناتا ہے تو سب سے پہلے دروازہ لگا
—
زمانے بھر نے کہا عرشؔ جو، خوشی سے سہا
پر ایک لفظ جو اس نے کہا سہا نہ گیا
—
وہ عیادت کو تو آیا تھا مگر جاتے ہوئے
اپنی تصویریں بھی کمرے سے اٹھا کر لے گیا
—
منزلِ مرگ میں جینے کی ادا رکھتا ہوں
یعنی ہر حال میں انداز جدا رکھتا ہوں
—
میں پیروی اہلِ سیاست نہیں کرتا
اک راستہ ان سب سے جدا چاہئے مجھ کو
—
ہاں سمندر میں اتر لیکن ابھرنے کی بھی سوچ
ڈوبنے سے پہلے گہرائی کا اندازہ لگا
—
کیا ساتھ ترا دوں کہ میں اک موجِ ہوا ہوں
بس ایک نفسِ عرضِ تمنا کو رکا ہوں
—
ہم نے چاہا تھا تیری چال چلیں
ہائے ہم اپنی چال سے بھی گئے
—
ہم کہ مایوس نہیں ہیں انہیں پا ہی لیں گے
لوگ کہتے ہیں کہ ڈھونڈے سے خدا ملتا ہے
—
آنکھوں میں کہیں اس کی بھی طوفاں تو نہیں تھا
وہ مجھ سے جدا ہو کے پشیماں تو نہیں تھا
—
وہ جس کی داستاں پھیلی دل دیوانہ میرا تھا
زبانیں دشمنوں کی تھیں مگر افسانہ میرا تھا
—
پھر اسی شہر کا فسانہ چھیڑ
مطربہ طرز عاشقانہ چھیڑ
—
بیٹھا ہوں وقفِ ماتمِ ہستی مٹا ہوا
زہر وفا ہے گھر کی فضا میں گھلا ہوا
—
جوشِ جنوں بھی گردشِ دوراں سے کم نہ تھا
دل تھا تو دشت غم بھی گلستاں سے کم نہ تھا
—
روشنی بن کے ستاروں میں رواں رہتے ہیں
جسم افلاک میں ہم صورت جاں رہتے ہیں
—
حصارِ دل سے ادھر بھی حقیقتیں ہیں بہت
ترے بغیر بھی جینے کی صورتیں ہیں ہیں
—
حیراں ہوں کہ یہ کون سا دستورِ وفا ہے
تو مثل رگِ جاں ہے تو کیوں مجھ سے جدا ہے
—
مہک ہے تیرے شبستاں کی بوئے زُلفِ صبا
چلی ہے بادِ صبا اک شکستہ پا کے لئے
—
بندھا ہے عہدِ جنوں چشمِ اعتبار کے ساتھ
اسے کہو کہ جئے عزمِ استوار کے ساتھ
—
عرشؔ میں خود ہوں سدا اپنے سکوں کا دشمن
دست امید بھی بر دوش ہوا رکھتا ہوں
—
یوں نہ کوئی تری محفل میں پریشاں ہو جائے
جیسے آوازِ صبا دشت میں حیراں ہو جائے
—
سوزش درد میں ہے عرشؔ قیامت پنہاں
وہ بھی کیا ہوں گے جو اس درد کا درماں ہوں گے
●•●┄─┅━━━★•••★━━━┅─●•●
عرشؔ صدّیقی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ