آج اردو کے معروف شاعر اور ادبی میگزین ’’ادب دوست‘‘ کے بانی اے جی جوشؔ کا یوم پیدائش ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو کے معروف شاعر اور ادبی میگزین ’’ادب دوست‘‘ کے بانی اے جی جوش کا اصل نام عبدالغفور ہے۔
اے جی جوش ۱۱، اپریل ۱۹۲۸ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے۔
میٹرک کا امتحان ۱۹۴۴ء میں چشتیہ ہائی سکول امرتسر سے پاس کیا۔
ایم اے او کالج امرتسر میں دوران تعلیم عبدالغفور جوش کے نام سے لکھنا شروع کیا اور بعد ازاں ’’اے جی جوش‘‘ کے نام سے مشہور ہو گئے۔
تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد ۱۴ جولائی ۱۹۴۷ء کو ایک برطانوی کمپنی برما شیل میں ملازمت کر کے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔
پہلی تقرری ملتان میں ہوئی اور تقسیم ہند کے بعد پاکستان کے مختلف شہروں میں تعینات رہے۔ ۵۵ سال کی عمر میں ۱۹۸۶ء میں ملازمت سے ریٹائر ہو گئے۔
ان کی غزلیں اور نظمیں مختلف اخبارات و جرائد میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ انہوں نے ایک ادبی میگزین ’’ادب دوست‘‘ کا اجرأ کیا جو ان کی وفات کے بعد بھی ان کے فرزند خالد تاج کے زیر ادارت شائع ہو رہا ہے۔
اے جی جوش کے اردو کے تین شعری مجموعے
’’دیر آید‘‘، ’’عشق کے دو موسم‘‘ اور ’’یہ جہان آرزو ہے‘‘
اور دو پنجابی مجموعے
’’دل دے بوہے ‘‘ اور ’’دل دیاں باریاں‘‘
کے نام سے شائع ہو چکے ہیں۔
اے جی جوش ۱۵، دسمبر ۲۰۰۷ء کو لاہور میں تقریباً ۸۰ سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سعد اللہ شاہ صاحب کا کالم
اے جی جوش بڑے مزے کے آدمی تھے۔ ان سے قتیل شفائی صاحب کے گھر میں ملاقات ہوئی تھی۔ ماشاء اللہ اپنے بھاری بھر کم جسم کی بدولت وہ محفل میں سب سے نمایاں ہوتے تھے۔ پہلی نظر میں بالکل معصوم اور گول مٹول۔ میں تشبیہ دینے کے لیے آپ کو میجی ملک کے ڈبے پر مسکراتا بچہ دیکھنے کے لیے کہوں گا۔ انہیں شوق تھا کہ وہ شاعری کریں اور وہ قتیل شفائی کو اپنا استاد بتاتے تھے۔ بعد میں یہ بھی پتہ چلا کہ کسی زمانے میں انہوں نے صوفی تبسم کو بھی اپنا کچھ کلام دکھایا تھا۔ میرے ساتھ ان کا تعلق استوار ہوا تو انہیں نہایت محبت کرنے والا پایا۔ خاص طور پر مشہور سفر نامہ نگار شوکت علی شاہ صاحب انہیں استاد جی کہتے تھے۔ اس کا راز بھی انہی کو معلوم تھا۔ ان سے دوستی بڑھی تو میں نے اپنے ایک پبلشر دوست سے کہہ کر ان کا پہلا شعری مجموعہ ’دیر آید‘ چھپوا دیا۔ ان کے مراسم تیزی سے وسیع ہوتے گئے۔ مجھے بڑا لطف آتا جب وہ کسی نئے ادیب‘ شاعر یا دانشور کو دیکھتے یا انہیں کسی شخص پر ایسا ہونے کا شک یا گمان گزرتا تو مجھے سرگوشی میں پوچھتے ’’کیا یہ شاعر ہے؟‘‘ اگر میں کہتا کہ ’’ہاں‘‘۔ کہتے ’’پھر دعوت کر دیں؟‘‘۔ میرا خیال ہے جتنی دعوتیں انہوں نے کیں شاید اردو ادب کی تاریخ میں لکھنو کے کسی راجا نے بھی نہیں کی ہوں گی۔ باہر سے بھی کوئی مہمان آتا تو اس دن اکثر ادیبوں کا کھانا جوش صاحب کے ہاں ہوتا۔
عطاء الحق قاسمی نے شب دیگ ڈرامہ لکھا تو پوری ٹیم کو کھانے پر مدعو کر لیا اور باہر سے کک منگوا کر شب دیگ اور کنّا تیار کروایا۔
برطانیہ سے سینیٹر اور پارلیمنٹیرین آئے تو پاک یوکے فرینڈ شپ کے ممبران کے ساتھ ایسی دعوت کی کہ انگریز بھی عش عش کر اٹھے۔ وہ پٹھورے‘ حلوہ پوری‘ سیخ کباب اور ایسی ہی دوسری اشیاء کھا کر سی سی کرتے رہے اور خوشی کے اشک بہاتے رہے۔
اے جی جوش کو سب پر ایک سبقت حاصل تھی کہ مشاعروں میں بعض اوقات کئی معصوم لوگ انہیں جوش ملیح آبادی سمجھ کر داد دیتے۔ طاہر تونسوی نے تو ایم اے کا ایک پرچہ بھی دکھایا جس میں ایک لڑکے نے جوش ملیح آبادی کے نام اے جی جوش کے شعر یا اے جی جوش کے نام پر جوش ملیح آبادی کے شعر لکھے تھے۔
یہ ان کے دسترخوان کی برکت تھی کہ تمام مکاتبِ فکر کے شاعر اور دانشور دو گھڑی کے لیے اکٹھے ہو جاتے تھے۔ گویا اے جی جوش باقاعدہ ایک مکتبۂ فکر تھے جس میں اکثر نشستیں بڑی ثمر بار ہوتی تھیں۔ انگریزی میں آپ اسے ’فروٹ فل‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔
ایک دفعہ جوش صاحب نے چائنہ سے آئے ہوئے ڈیلی گیشن کا چائینیز ہوٹل میں کھانے کی دعوت دی۔ جب سب ادیب شاعر آ چکے تو جوش صاحب کھڑے ہو کر مخاطب ہوئے ’’حضرات میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے اپناقیمتی وقت یہاں آ کر ضائع کیا‘‘۔ ایک قہقہہ بلند ہوا۔ مہمان نے میزبان مترجم سے پوچھا کہ انہوں نے کون سی دلچسپ بات کی ہے کہ یہ قہقہہ بلند ہوا۔ مترجم نے نہایت عقل مندی سے کہا ’’وہ آپ کی تعریف کر رہے ہیں‘‘۔
ایک دفعہ ہم لوگ بیٹھے تھے کسی نے کہا ’’جوش صاحب! آپ کو بھی تمغۂ حسن کارکردگی کے لیے اپلائی کردینا چاہیے‘‘۔ میں نے کہا ’’جوش صاحب کے لیے یہ تمغے ومغے کیا چیز ہیں وہ تو ایسے بیس تمغے خرید سکتے ہیں‘‘۔ انہوں نے پہلے فوراً میری ہاں میں ہاں ملائی مگر تھوڑی دیر کے بعد بولے ’’اوئے توں کیہ بکواس کیتی اے‘ ذرا فیر آکھ کیہ کیا سی‘‘۔ سب لوگ قہقہہ بار ہوگئے۔
ان کا انداز بہت سیدھا اور جارحانہ ہوا کرتا تھا۔ ایک دن میں نے مذاق سے کہہ دیا کہ ’’جوش صاحب لوگ بھی عجیب ہیں۔ کسی کو رد کرنے کے لیے فضول بہانے ڈھونڈتے ہیں جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا مثلاً اب آپ سے کوئی کہے کہ آپ شاعر ہی نہیں کیونکہ آپ سے تو ہلا تک نہیں جاتا‘‘۔ اوہ مرے خدایا! غصے میں چھڑی کے بغیر ہی اٹھ کر کھڑے ہوگئے اور جو کچھ انہوں نے فرمایا لکھا نہیں جا سکتا۔
ان کا جیل روڈ پر پیٹرول پمپ تھا وہاں بھی محفل جمتی۔ کئی شاعروں نے موٹر سائیکلوں کی سروس وہاں سے کروانی شروع کر دی۔ شاید بعض اور توقعات بھی رکھتے ہوں۔ جوش صاحب نے وہ پٹرول پمپ بیچ دیا۔ وہ لبرٹی میں بیٹھتے تھے۔ راجا نیئر کی مدد سے انہوں نے ادبی رسالے ’’ادب دوست‘‘کا ڈیکلیریشن لے لیا جو بقول راجہ نیئر اسے رسالے کے نکلنے سے پہلے ہی نکال دیا گیا۔ واللہ اعلم کیوں؟ ’’سن کے ستم ظریف نے مجھ کو اٹھا دیا کہ یوں؟‘‘ تاریخ خاموش ہے۔ ’ادب دوست‘ مسلسل نکلتا رہا اور اب ان کے بچے اسے نکال رہے ہیں۔ یہ کم نہیں کہ ایک امیر آدمی نے اپنی رقم کسی مجرے پر خرچ کرنے کی بجائے ادیبوں شاعروں پر خرچ کی اور اپنا نام چھوڑ گیا۔ اللہ انہیں جنت الفردوس عطا کرے۔ آمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منتخب کلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حمد
جب لیتا ہوں میں نام ترا مری صبح حسیں ہو جاتی ہے
ہر سانس مہکنے لگتی ہے تابندہ جبیں ہو جاتی ہے
جب صحن چمن میں جا کر میں کھلتی کلیوں کو دیکھتا ہوں
مرے گرد و پیش کی ساری فضا فردوس بریں ہو جاتی ہے
جو مانگتا ہوں ترے در سے وہ ملنے میں اگر کچھ دیر بھی ہو
اٹھتے ہیں دعا کو ہاتھ جہاں تسکین وہیں ہو جاتی ہے
سب بگڑے کام انسانوں کے بس تیرے کرم سے بنتے ہیں
ہم آس لگا لیتے ہیں کہیں اور پوری کہیں ہو جاتی ہے
مایوس تو ہوں دنیا سے مگر تری رحمت سے مایوس نہیں
ترے ابر کرم سے اک پل میں شاداب زمیں ہو جاتی ہے
ٹھکرا دیتا ہے اک پل میں وہ کون و مکاں کی دولت کو
جب جوشؔ کسی کے دل میں لگن اللہ کی مکیں ہو جاتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نعت
تو مری زندگی ہے مری جان ہے
مولا ہر شے تجھ پہ قربان ہے
سارے نبیوں میں رتبہ ہے بالا ترا
اور سب سے بڑا تو ہی انسان ہے
تجھ کو پڑھ کر بسر زندگی ہم نے کی
جس کے قاری ہیں ہم تو وہ قرآن ہے
تو نے بخشش کی منزل دکھائی ہمیں
ترا ممنون ہر اک مسلمان ہے
تیرے روضے کی جالی کو جو چوم لے
اس کے سب غم مٹیں میرا ایمان ہے
سب نے مانا ہمیں تیرے در کا گدا
یہ گدائی تو مومن کی پہچان ہے
اک چٹائی پہ بیٹھا حکومت کرے
دیکھ لو یہ مدینے کا سلطان ہے
کاش نکلے مرا تیری چوکھٹ پہ دم
ایک مدت سے دل میں یہ ارمان ہے
جب محمد ﷺ کا سایہ ہے سر پر ترے
کس لیے جوشؔ پھر تو پریشاں ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جفاؤں سے تمھاری اپنی تکمیل وفا ہو گی
خرد کی ابتدا ہو گی جنوں کی انتہا ہو گی
کسی کے دل کی دنیا بھی کبھی درد آشنا ہو گی
جو میرے دل سے ابھرے گی وہی اس کی صدا ہو گی
وہ جینے بھی نہیں دیتے وہ مرنے بھی نہیں دیتے
تو پھر یہ زندگی کیسے بسر میرے خدا ہو گی
اٹھایا جام ساقی نے مرے آگے سے یہ کہہ کر
اگر تم اور پی لو گے تو محفل بے مزا ہو گی
مجھے ہر بار دھوکا دیتی ہے دھڑکن مرے دل کی
یہی ہر دم سمجھتا ہوں تری آواز پا ہو گی
مری باتوں پہ چپ رہنا مرے رونے پہ ہنس دینا
میں سمجھا یہ بھی اس کے حسن کی کوئی ادا ہو گی
جلیں گی اور بجھیں گی شمعیں ان کی بزم میں لیکن
نہ ہو گا جوشؔ جس محفل میں وہ محفل بھی کیا ہو گی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اک شمع بن کے یار نے جلوہ دکھا دیا
پروانہ اپنے حسن کا مجھ کو بنا دیا
روشن کیا تھا دل میں محبت کا جو چراغ
کیوں تو نے اپنے ہات سے اس کو بجھا دیا
زلف سیہ کا حد سے تصور جو بڑھ گیا
میرے ہی ساۓ نے بجھے اکثر ڈرا دیا
دنیا میں جب کوئی مرا درد آشنا نہ تھا
پھر تو نے کیوں مجھ دل درد آشنا دیا
اللہ رے حسن یار تری خوش نگاہیاں
جس غنچے پر نگاہ پڑی مسکرا دیا
راہ جنوں میں جوش کا عالم نہ پوچھیۓ
رکھا جہاں قدم اسے صحرا بنا دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کے چہرے کی چمک شمس و قمر ہو جیسے
ان کے عارض کی ضیا نور سحر ہو جیسے
دل میں ہر لحظہ یہ ہوتی ہے خلش سی محسوس
ناوک ناز کا ہلکا سا اثر ہو جیسے
نخل امید کو یوں سینچ رہا ہے کوئی
دست نازک میں محبت کا اثر ہو جیسے
میری منزل کا پتہ مجھ کو بتا دے کوئی
راہبر ایسا ملے کوئی خضر ہو جیسے
اسی طرح میری محبت کا ہوا ہے چرچا
سنسنی خیز کوئی تازہ خبر ہو جیسے
جانے اس طرح سے کیوں لوگ ہیں آتے جاتے
محفل عشق کوئی راہ گزر ہو جیسے
بے خودی جوش پہ اس بزم میں چھائی ایسے
بے خبر ہو کے زمانے کی خبر ہو جیسے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ خالد محمود