علی سفیان آفاقی 22 اگست 1933ء کو بھوپال کے شہر سیہور میں پیدا ہوئے تھے۔
قیام پاکستان کے بعد وہ 14 سال کی عمر میں اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان آئے اور لاہور میں سکونت پذیر ہوئے اور عملی صحافت سے وابستہ ہوگئے۔
انھوں نے جماعت اسلامی کے ترجمان روزنامہ تسنیم سے صحافت کی ابتدا کی لیکن جلد ہی یہ اخبار بند ہو گیا تو وہ ہفت روزہ چٹان میں کام کرنے لگے اور پھر نوائے وقت سے وابستہ ہو گئے۔
وہ 1953 میں روزنامہ آفاق سے وابستہ ہوئے۔ روزنامہ آفاق سے وابستگی کی وجہ سے وہ اپنے نام کے ساتھ آفاقی لکھنے لگے۔ اسی دوران ان کے تعلقات فلمی شخصیات سے استوار ہوئے تو انہں نے پہلے بطور کہانی نگار اور بعد ازاں بطور فلم ساز فلمی صنعت سے وابستگی اختیار کی۔
آفاقی نے 1957 میں فلموں کے لیے باقاعدہ کام کی ابتدا کی اور فلم ٹھنڈی سڑک کی کہانی لکھی۔ شباب کیرانوی کے لیے اس کامیڈی فلم نے بڑی کامیابی حاصل کی۔
1958 میں جب جنرل ایوب خان کا مارشل لا لگا اور اخبارات پر پابندیاں لگیں تو آفاقی صحافت چھوڑ کر مکمل طور پر فلموں کی طرف آ گئے۔
فلم ساز فاضلانی نے اپنی فلم میں نئی ہیروئن نگہت سلطانہ کو متعارف کرایا اور فلم باکس آفس پر کامیاب ہوگئی تو شوکت حسین رضوی نے نگہت کو اپنی فلم میں کام کرنے کے لیے لاہور بلا لیا۔ اس فلم میں نورجہاں ہیروئن تھیں۔ کچھ ہی دنوں میں کچھ لوگوں نے نورجہاں کو بھڑکایا کہ نگہت شوکت رضوی پر ڈورے ڈال رہی ہے۔ نورجہاں نے اُسی وقت سٹوڈیو جا کر نہ صرف نگہت سلطانہ کو گالیاں دیں بلکہ مارا بھی اور سٹوڈیو سے بھی نکال دیا۔
سفیان آفاقی نے نگہت سلطانہ کا تفصیلی انٹرویو کیا جو دوسرے دن آفاق میں پورے صفحے پر شائع ہوا۔
پہلے تو مالکان نورجہاں کے اثر رسوخ کی بنا پر ناراض ہوئے لیکن جب انٹرویو کی وجہ سے اخبار کی دس ہزار سے زائد کاپیاں مزید شائع کرنی پڑیں تو اخبار میں فلم ایڈیشن کی باقاعدہ ابتدا کی گئی اور علی سفیان کو اُس کا انچارج بنا دیا گیا۔
انھوں نے فلم ساز، ہدایت کار، مکالمہ نگار اور سکرپٹ رائٹر کی حیثیت سے 38 فلمیں دیں۔ جن میں خاص طور سے ’آس‘، ’کنیز‘، ’میرا گھر میری جنت‘ بہت کامیاب رہیں۔ ان کی اپنی فلم ’آس‘ کو 1973 میں بہترین فلم، بہترین پروڈکشن، بہترین سکرپٹ اور بہترین مکالموں پر چار ایوارڈ حاصل ہوئے۔
انھوں نے جن فلموں کی کہانی اور مکالمے لکھے ان میں ٹھنڈی سڑک، فرشتہ، جوکر، تقدیر، عندلیب، دوستی، آس، انتظار، اجنبی، آبرو، عاشی، پلے بوائے،مس کولمبو اور کبھی الوداع نہ کہنا کے نام سرفہرست ہیں جبکہ بطور فلم ساز ان کی دیگر فلموں میں کنیز،آدمی، میرا گھر میری جنت ، سزا اور آس کے نام شامل ہیں۔
1989ء میں انھوں نے لاہور سے ماہنامہ ہوش ربا ڈائجسٹ نکالا، بعد ازاں وہ ہفت روزہ فیملی میگزین سے بطور مدیر وابستہ ہوئے۔
1990ء کی دہائی میں انھوں نے کراچی سے نکلنے والے جریدے سرگزشت میں فلمی الف لیلہ کے نام سے پاکستان کی فلمی دنیا کا احوال لکھنا شروع کیا جو قارئین میں بے حد مقبول ہوا ۔ ان کی وفات تک اس سلسلے کی ڈھائی سو سے زیادہ اقساط شائع ہو چکی تھیں ۔
علی سفیان آفاقی نے کئی کتابیں بھی لکھیں جو خاصی مقبول ہوئیں۔
انھوں نے کئی سفرنامے بھی تحریر کیے جو پڑھنے والوں میں بے حد پسند کیے گئے ۔
ان کے سفرناموں میں یورپ کی الف لیلہ، طلسمات فرنگ، ذرا انگلستان تک، نیل کنارے، عجائباتِ فرنگ، امریکہ چلیں، ذرا انگلستان تک، کمال با کمال اور موم کا آدمی شامل ہیں۔
ان سفرناموں میں یورپ کی الف لیلہ، طلسمات فرنگ، ذرا انگلستان تک، نیل کنارے اور دیکھ لیا امریکا کے نام سر فہرست ہیں ۔
علی سفیان آفاقی نے 27 جنوری 2015ء کو طویل علالت کے بعد لاہور میں وفات پائی۔ مرحوم آخر تک ہفت روزہ فیملی میگزین کے مدیر تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انتخاب و پیشکش
نیرہ نور خالد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر
عبدالحفیظ ظفر
قدرت بعض لوگوں کو ایسی صفات سے نوازتی ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ان کی غیر معمولی صلاحیتیں دوسروں کیلئے قابل رشک ہوتی ہیں۔ وہ کثیر الجہات شخصیت کے مالک ہوتے ہیں۔ تاریخ کے صفحات کی ورق گردانی کی جائے تو ایسے بے شمار لوگ مل جائیں گے جنہوں نے اپنی گوناگوں خوبیوں کی بدولت ایک نہیں بلکہ کئی میدانوں میں اپنے فن کے جھنڈے گاڑے۔ ان میں سے ایک علی سفیان آفاقی بھی تھے۔ جنہوں نے لکھا، بہت لکھا بلکہ بہت زیادہ لکھا۔ وہ صحافی، ادیب، سفر نامہ نگار، فلم کے سکرپٹ رائٹر، مکالمہ نگار فلمساز اور ہدایت کار تھے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ خود ایک ادارے کی حیثیت رکھتے تھے۔
وہ 22اگست 1933ء کو بھوپال (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم بھوپال سے حاصل کی اور باقی کی تعلیم لاہور سے مکمل کی۔
انہوں نے بی اے (آنرز) کیا اور 1951ء میں صحافت شروع کی۔وہ روزنامہ ’’تسنیم‘‘ سے وابستہ ہو گئے۔ اس کے بعد بھی وہ کئی اخبارات سے وابستہ رہے۔ پھر وہ معین شاہین کے ہفت روزہ ’’اقوام‘‘ کے ایڈیٹر بن گئے۔ ’’زمیندار‘‘ کی بندش کے بعد مولانا اختر علی خان کے بیٹے اور مولانا ظفر علی خان کے پوتے منصور علی خان نے روزنامہ ’’آثار‘‘ شروع کیا اور آفاقی صاحب کو جوائنٹ ایڈیٹر مقرر کر دیا گیا۔
علی سفیان آفاقی ایک منجھے ہوئے کالم نگار بھی تھے۔ ان کے کالموں میں سماجی، سیاسی اور ثقافتی حوالوں سے بہت کچھ پڑھنے کو ملتا تھا۔ وہ کئی اخبارات میں کالم لکھتے رہے۔
1957ء میں انہوں نے شباب کیرانوی کے اشتراک سے فلم ’’ٹھنڈی سڑک‘‘ بنائی۔ یہ فلم بہترین کامیڈی کی وجہ سے ہٹ ہو گئی۔ اس فلم کی کہانی، سکرین پلے اور مکالمے علی سفیان آفاقی نے تحریر کیے تھے۔ 1958ء میں جب ایوب خان کا مارشل لا نافذ ہوا تو علی سفیان آفاقی نے مایوسی کے عالم میں صحافت چھوڑ دی اور اپنے آپ کو فلمی صنعت کیلئے وقف کر دیا۔ ان دنوں فلمساز و ہدایت کار حسن طارق فلم ’’جنگلی‘‘ بنا رہے تھے۔ اس فلم کے سکرپٹ کے لیے انہوں نے آفاقی صاحب کی خدمات حاصل کیں لیکن یہ فلم فلاپ ہو گئی۔اسی سال آفاقی صاحب نے فلم ’’ایاز‘‘ اور ’’آدمی‘‘ کا سکرین پلے اور مکالمے لکھے۔ دونوں شاندار فلمیں تھیں۔ پھر انہوں نے دوستوفسکی کے مشہور ناول ’’جرم و سزا‘‘ سے متاثر ہو کر ’فرشتہ‘‘ لکھی۔ 1965ء میں آفاقی صاحب نے فلم ساز کی حیثیت سے فلم ’’کنیز‘‘ بنائی۔ اس میں حسن طارق نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔ یہ ایک باکمال فلم تھی جس میں محمد علی، وحید مراد، صبیحہ خانم اور آغا طالش نے بے مثال اداکاری کا مظاہرہ کیا۔ اس کی کہانی آفاقی صاحب کے زرخیز ذہن کی پیداوار تھی۔ محمد علی نے اس فلم میں ولن کا کردار ادا کیا تھا۔اس کے بعد علی سفیان آفاقی اور حسن طارق نے مل کر ایک اور معیاری فلم تخلیق کی جس کا نام تھا ’’میرا گھر میری جنت‘‘ اس فلم میں شمیم آرا، محمد علی، رانی اور ساقی نے ناقابل فراموش اداکاری کی۔ اس کے بعد انہوں نے تنہا پرواز کرتے ہوئے فلم ’’سزا‘‘ بنائی جس میں روزینہ اور جمیل نے مرکزی کردار ادا کیے۔ اس فلم کا ایک گیت بہت مقبول ہوا ’’جب بھی چاہیں اِک نئی صورت بنا لیتے ہیں لوگ‘‘۔ اسے قتیل شفائی نے لکھا تھا۔ 1973ء میں ساحر لدھیانوی نے اسی گیت کو تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ یش چوپڑا کی فلم ’’داغ‘‘ میں شامل کیا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ ’’سزا‘‘ جمیل کی پہلی فلم تھی۔ بعد میں انہوں نے ریاض شاہد کی فلموں ’’غرناطہ‘‘ اور ’’یہ امن‘‘ میں اہم کردار ادا کیے۔1971ء کے بعد وہ بھارت چلے گئے۔ 1973ء میں آفاقی صاحب نے ’’آس‘‘ بنائی۔ یہ ہر لحاظ سے ایک معیاری فلم تھی۔ نثار بزمی کی موسیقی نے اس فلم کے نغمات کو چار چاند لگا دیئے تھے۔ اس میں محمد علی، شبنم اور قوی نے بڑی جاندار اداکاری کی۔ پھر 1974ء میں ان کی فلم ’’آبرو‘‘ نے بھی سب کو چونکا کے رکھ دیا۔ یہ بھی ایک کامیاب فلم تھی۔
انہوں نے فلم ساز ہدایت کار اور کہانی نویس کی حیثیت سے جو فلمیں تخلیق کیں ان میں ’’ٹھنڈی سڑک، ایاز، آدمی، فرشتہ، آج کل، جوکر، قتل کے بعد، ایک ہی راستہ، آسرا، سوال، شکوہ، دیوانگی، فیصلہ، آر پار، عندلیب، مہربانی، گمنام، انتظار، نمک حرام‘‘ اور کئی دوسری فلمیں شامل ہیں۔
علی سفیان آفاقی نے جو کتابیں تصنیف کیں ان میں ’’سید ابوالاعلیٰ مودودی کی سوانح عمری، سیاسی باتیں، سیاسی لوگ، دیکھ لیا امریکہ، ذرا انگلستان تک، دورانِ سفر، طلسماتِ فرنگ، خوابوں کی سرزمین، شعلہ نوا شورش کاشمیری، سفرنامہ ترکی، سفر نامہ ایران‘‘ اور کئی دوسری کتابیں شامل ہیں۔
27جنوری 2015ء کو علی سفیان آفاقی اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔