خواجہ دل محمد شیخ خاندان سے تعلق رکھتے تھے ان کے مورث اعلیٰ سلطان محمود غزنوی کے عہد میں اسلام لائے۔ ان کا آبائی وطن غزنی تھا۔ ان کے بعد کے بزرگ لاہور آ کر آباد ہو گئے۔
آباد و اجداد کا پیشہ تجارت تھا۔ حوادث روزگار اور انقلاب زمانہ کا مقابلہ کرتے ہوئے یہ خاندان ہر دور میں ترقی کرتا رہا۔خواجہ دل محمد لاہور کے کوچہ ’’گیان‘‘ عقب کشمیری بازار میں 9 فروری 1883 ء میں خواجہ نظام الدین ابن خواجہ نور محمد کے گھر پیدا ہوئے۔
قرآنی تعلیم کا آغاز چار برس کی عمر میں سنہری مسجد سے کیا۔ کلام ناظرہ کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اسلامیہ ہائی سکول شیرانوالہ گیٹ میں داخل ہوئے اور میٹرک تک تعلیم اسی سکول سے حاصل کی۔ اسی دوران انجمن حمایت اسلام نے اسلامیہ ہائی سکول کی عمارت کے بالائی حصے میں کالج بھی قائم کر دیا۔ لہٰذا خواجہ دل محمد نے ایف اے اور بی اے کے امتحانات اسلامیہ کالج ہی سے پاس کئے۔ کالج کے زمانے میں شیخ سر عبدالقادر ان کے استادوں میں سے تھے اور ان کی شخصیت نے خواجہ دل محمد کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ریاضی کے مضمون سے خواجہ دل محمد کو ایک فطری مناسبت اور رغبت تھی۔ بیچلرز میں ان کے مضامین میں ریاضی کا ڈبل کورس تھا اور پھر یہی مضمون ماسٹرز میں اختیار کیا اور ریاضی میں ماسٹرز کا امتحان پاس کیا۔
اس کے بعد اسلامیہ کالج ہی میں استاد مقرر ہو گئے۔ کالج کے ساتھ آپ کی وابستگی والہانہ تھی۔ مختلف وقتوں میں گرانقدر مشاہرے پر بھی نوکریوں کی پیشکش ہوئی۔ لیکن خواجہ صاحب نے فیصلہ ہمیشہ اسلامیہ کالج کے حق میں دیا اور 35 برس تک اس کالج میں تشنگان علم کو فیض یاب کرتے رہے۔ 1940 ء میں اس کالج کے پرنسپل ہوئے اور 1943 ء میں سبکدوش ہو گئے۔ ریٹائر ہونے کے بعد رجسٹرار ضلع لاہور مقرر ہوئے۔1947 ء میں تقسیم ہند کے وقت خرابی صحت کے سبب اس عہدے سے سبکدوش ہو گئے۔ ملازمت کے اس عرصہ کے دوران تصنیف و تالیف میں بھی مصروف رہے۔
استاد کے طور پر خواجہ دل محمد بڑے کامیاب اور ہر دلعزیز تھے۔ ان کا علم اور تجربہ بڑا وسیع تھا۔ ریاضی جیسے خشک مضمون کو ایسے دلچسپ انداز سے پڑھاتے تھے کہ طلبہ کلاس میں شوق سے آتے اور خوش و خرم جاتے تھے۔ ان کی حیثیت بطور ریاضی دان مسلمہ تھی اور ان کے پائے کے ماہر ریاضیات انگلیوں پر شمار کئے جا سکتے تھے۔آپ کے نامور شاگردوں میں شیخ عبداللہ سابق وزیر اعلیٰ ریاست مقبوضہ کشمیر ، عبدالمجید سالک، مولانا غلام رسول مہر اور پروفیسر تاج محمد خیال (بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن کے پہلے چیئر مین) شیخ زاہد حسین (سابق گورنر سٹیٹ بنک) شامل ہیں۔
خواجہ دل ریاضی اور شاعری کی خداداد صلاحیت رکھتے تھے۔ آپ نے اپنی شاعری کا آغاز نعت گوئی سے کیا۔ 1902ء میں جب آپ ایف اے کے طالب علم تھے تو آپ کے والد نے آپ کی شاعری کے ابتدائی کلام کا مجموعہ ’’حمدو نعت‘‘ کے عنوان سے طبع کرایا لیکن اب اس کا کوئی نسخہ دستیاب نہیں ہے۔
خواجہ دل محمد کی شاعری کا باقاعدہ آغاز انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسوں میں قومی نظموں سے ہوا۔ طالب علمی کے زمانے میں خواجہ صاحب ان جلسوں میں نظمیں سناتے تھے جہاں اکابر شعرا کرام نظمیں سناتے تھے۔ خواجہ دل محمد ان اکابر شخصیات سے داد بھی حاصل کرتے اور فیض بھی پاتے تھے۔ خدا نے انہیں ذہن سلیم عطا کیا تھا۔ اس لئے حالی، ارشد گورگانی، سائل دہلوی اور علامہ اقبالؒ کے کلام سے استفادہ کر کے انہوں نے اپنی شاعری کو بالیدگی بخشی۔ مولانا حالی اور اقبالؒ کے کلام سے متاثر ہو کر انجمن کے سالانہ جلسوں میں بڑی اچھی نظمیں پڑھیں۔ ان سالانہ جلسوں میں پڑھی جانے والی نظموں کا مجموعہ بڑا ضخیم تھا۔ چنانچہ بعد ازاں خواجہ صاحب نے اس مجموعے کی نظموں میں کانٹ چھانٹ کی اور دوبارہ 1956 ء میں ’’حیات نو‘‘ کے نام سے شائع کیا۔
خواجہ دل محمد کی سیاسی اور سماجی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے انہوں نے ملازمت کی پابندیوں کے باوجود قومی اور سیاسی تحریکوں میں حصہ لیا۔ 1924 ء میں خلافت اور کانگریس کی متحدہ کمیٹی کے ٹکٹ پر میونسپل کمیٹی کے الیکشن میں حصہ لیا اور دامے ‘ درمے ‘ قدمے ‘ سخنے مسلمانوں کی مدد کرتے رہے اور اپنی شاعری کے ذریعے اپنے ملک پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کا فریضہ سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں میں آزادی کا جوش اور ولولہ بھی پیدا کرتے رہے۔ 1938 ء میں انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں پڑھی جانے والی نظم ’’محمد بن قاسم فاتح پاکستان‘‘ کا یہ شعر ان کے جذبات کا بھرپور ترجمان ہے۔
ملا پنجاب و سندھ و سرحد و کشمیر کو یکجا
خدا کے پاک بندے اپنا پاکستان پیدا کر۔
ریاضی ایک مشکل اور خشک مضمون ہونے کے سبب طلبہ کیلئے ہمیشہ وبال جان رہا ہے لیکن خواجہ دل محمد نے اس کی تدریس میں ایسا شگفتہ اور دل کش اسلوب اختیار کیا کہ ریاضی سے بدکنے والے اس کے مداح ہو کر رہ گئے۔ آپ نے 1924ء میں الجبرے کی پیچیدگیوں کا آسان حل بذریعہ تصنیف پیش کیا۔ یہ الجبرا انتہائی مقبول ہوا اور ہزاروں کی تعداد میں چھپ کر فروخت ہوا۔ اس کی زبردست مقبولیت کے سبب آئندہ سال آپ نے مزید دو کتابیں تصنیف کیں۔ تینوں کتابوں کا سیٹ 1935 ء میں مکمل ہوا۔ یہ تینوں کتابیں ہر سکول میں رائج ہو گئیں۔ یہاں تک کہ یہ کتابیں علی گڑھ یونیورسٹی، بمبئی اور مدارس یونیورسٹی کے نصاب میں بھی منظور ہو گئیں۔ جیو میٹری کا اسلوب اس قدر پسند کیا گیا کہ ہندو سکولوں میں بھی یہ کتاب پڑھائی جانے لگی۔ ان کتب سے پہلے انجمن حمایت اسلام کے اسلامیہ سکولوں میں ہندو اور انگریز مصنفین کی کتابیں رائج تھیں مگر خواجہ دل محمد کی ان تصانیف کی طباعت کے بعد یہ کتابیں پڑھائی جانے لگیں۔
قیام پاکستان کے ایک سال بعد خواجہ دل محمد نے پاکستانی تعلیمی اداروں کیلئے اس مشہور سلسلے کو انگریزی سے اردو میں منتقل کر دیا۔ اردو میں نصابی کتب کا یہ پہلا معیاری سلسلہ تھا جس کی خوب پذیرائی ہوئی اور اسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔
خواجہ دل محمد کی مرتب کردہ ریاضی کی 32 کتب مختلف مدارج کے نصاب میں شامل رہیں۔خواجہ دل محمد نے پنجاب یونیورسٹی لاہور کی اعلیٰ جماعتوں کا نصاب تیار کرنے میں بھی حصہ لیا۔ پنجاب یونیورسٹی سنڈیکیٹ کے گیارہ برس تک ممبر اور 24 برس تک فیلو آف پنجاب یونیورسٹی رہے۔ لاہور امپرومنٹ ٹرسٹ کے چھ سال تک ٹرسٹی رہے۔
خواجہ صاحب نے اپنی تمام عمر علم و ادب اور سماجی خدمات میں گزاری۔آپ کا انتقال 27 مئی 1961 ء کو سرطان کی بیماری کے باعث ہوا۔