آج – 14؍اکتوبر 1984
منفرد لب و لہجہ کے لیے معروف نوجوان شاعر” ڈاکٹر شہروزؔ خاور صاحب “ کا یومِ ولادت…
نام حفظ الرحمٰن، تخلص شہروز خاور ہے۔ وہ ١٤؍اکتوبر ١٩٨٤ء کو شہر مالیگاؤں، ضلع ناسک ( مہاراشٹر) بھارت میں پیدا ہوئے۔ کم عمری سے ہی شعر و ادب سے دلچسپی رکھتے تھے۔ عصری تعلیم مقامی اسکول سے حاصل کیے اور شعر و ادب میں جناب صالح ابن تابشؔ سے شرف تلمذ حاصل کیا ۔ گذشتہ چند برسوں سے شہر ادب مالیگاؤں کے ادبی منظر نامےپر نئی نسل اپنی فکر و نظر سے جو لہلہاتی فصلِ بہاراں اگارہی ہے وہ متاثر کن دکھائی دیتی ہے۔
شہروزؔ خاور کے شعری رویوں میں زود گوئی کا عنصر بھی پایا جاتا ہے ۔ لیکن کچھ عرصہ سے اک خاموشی طاری ہے۔ باوجود ان شعری محاسن کے شہروزؔ کے شعروں میں عجلت پسندی کا آہنگ در آیا ہے ۔ جوان کے فکری نگار خانے کو ضرور متاثر کرتاہے۔
✨ پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤
نئی نسل کے نمایاں شاعر شہروزؔ خاور کے یومِ ولادت پر منتخب کلام بطورِ خراجِ تحسین…
موسم ہے خوشگوار ، ہوا مشکبار ہے
لیکن ترے بغیر ہمیں کب قرار ہے
میں بھی خزاں رسیدہ ہوا چاہتا ہوں اب
شاخِ حنا بھی منتظرِ دستِ یار ہے
تنہائیاں : ہر ایک تکلف سے بے نیاز
محفل : رہینِ رنگ و گل و برگ و بار ہے
اک دوسرے کے حق میں قصیدے لکھے گئے
حالانکہ سب کو سب سے شکایت ہزار ہے
اک دل جسے دھڑکنے علاوہ نہیں ہے کام
اک سانس ہے کہ بار غم روزگا ہے
پھر قیس کو ہوا ہے گمان وصال یار
پھر دشت میں خلاف توقع بہار ہے !
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ہر اک چہرے میں تبدیلی بہت ہے
کہ ہم نے زندگی جی لی بہت ہے ؟
بہت گہرا ہے یہ نیلا سمندر
کسی کی آنکھ بھی نیلی بہت ہے
وہیں پر بیٹھ کر ہنستے تھے دونوں
وہ اک دیوار جو گیلی بہت ہے
گلاب و سوسن و چمپا چنبیلی
زمیں کی سوچ رنگیلی بہت ہے
ہمارا کل اثاثہ ہے شرافت
سنا ہے وہ بھی شرمیلی بہت ہے
کئی دن ہوگئے فاقہ کشی کو
یا میری شرٹ ہی ڈھیلی بہت ہے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ڈالے رکھا ہوا کو عجب امتحان میں
جلتا ہوا چراغ تھا میرے گمان میں
اب چاہتا ہوں میں کہ تو سینے سے آ لگے
کب تک کھنچا کھنچا سا رہے گا کمان میں
چھت کو سنبھالتے ہوئے اک عمر کٹ گئی
افسوس میرا ذکر نہیں ہے مکان میں
مغرور تھے جو اپنی زمینوں پہ کل تلک
پرواز کررہے ہیں مرے آسمان میں
مٹی کا نرم جسم مبارک تمھیں جناب
نشّو و نما کا اپنا مزہ ہے چٹان میں
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اندھیرا جس کو دنیا کہہ رہی ہے
اجالوں کی عدم موجودگی ہے
نظر آتا ہے جو کچھ آئینے میں
اسی کا نام شاید آدمی ہے
نشے جیسا کوئی گزرا تھا کل شب
گلی مدہوش ہوکر مڑ گئی ہے
پھنسے تھے لفٹ میں ہم اتفاقاً
وہیں پر زندگی رک سی گئی ہے
اندھیروں نے کیا تھا چاند اغوا
تعاقب میں ابھی تک روشنی ہے
بدن صحرا میں سرگرداں لہو ہے
ہماری خاک چھانی جارہی ہے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کچھ کھڑے ہیں تماش بینوں میں
کچھ ہیں آباد آستینوں میں
تیرے قدموں سے جو ابھرتی ہے
منتظر ہے وہ چاپ زینوں میں
مرحلہ ہجر کا جب آئے گا
دن بدل جائیں گے مہینوں میں
ہو کھنڈر ، چاہے دل کہ ویرانہ
مشترک ہیں صفات تینوں میں
ایک دھڑکا لگا سا رہتا ہے
جانے کیسا ہے خوف سینوں میں
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
شہروزؔ خاور
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ