پیدائش: 22 دسمبر 1906ء
وفات: 16 اپریل 1993ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مالک رام باویجا کا قلمی نام مالک رام تھا۔ وہ ایک مشہور اردو، فارسی اور عربی عالم تھے۔ انہیں اپنی شاہکار تخلیق "تذکرہ معاصرین" پر 1983ء میں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ ملا۔
اردو اور فارسی کے مشہور شاعر مرزا غالب پر حرفِ آخر ہونے کے علاوہ مالک رام اپنے دور کے مشہور مصنف اور نقاد بھی تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں 80 تخلیقات تدوین یا شائع کرائیں۔
گو کہ ان کی تحریریں اردو، فارسی، عربی اور انگریزی میں ہوتی تھیں مگر زیادہ تر تحریریں اردو میں ہیں اور ادب، مذہب اور تاریخ کے موضوعات غالب ہیں۔
مزید براں انھوں نے 200 سے زیادہ مقالے اور مضامین اردو میں پاکستان اور بھارت کے ادبی جریدوں اور رسالوں میں چھپوائے۔
مالک رام منڈی بہاؤ الدین کے نواحی علاقے پھالیہ میں 22 دسمبر 1906ء کو پیدا ہوئے۔ وزیر آباد میں ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا۔
1931ء تا 1937ء تک انہوں نے بطور صحافی کام کیا۔ پہلے انہوں نے لاہور کے ماہانہ ادبی جریدے نیرنگِ خیال کے لیے جائنٹ ایڈیٹر کا کام اور پھر اس کے مدیر بنے۔ اسی دوران وہ لاہور کے ہفتہ وار آریہ گزیٹ کے غیر علانیہ مدیر بھی رہے۔
بعد ازاں جنوری 1936ء تا جون 1936ء تک انہوں نے لاہور کے روزنامہ بھارت ماتا کے نائب مدیر کا کام کیا۔
1939 تا 1965 تک انھوں نے انڈین فارن سروس میں شمولیت اختیار کیے رکھی جس سے انھیں ایشیا، مشرقِ وسطیٰ اور یورپ کی سیر کا موقع ملا اور وہاں کی لائبریریوں، عجائب گھروں اور آرکائیوز میں محفوظ مشرقی متن اور قلمی نسخوں کا بذاتِ خود مطالعہ کیا۔
1965ء میں گورنمنٹ ملازمت سے سبکدوش ہو کر انھوں نے انڈیا کی نیشنل اکیڈمی آف لیٹرز، ساہتیہ اکیڈمی نئی دہلی میں شمولیت اختیار کر لی۔ اس کی ذمہ داریوں میں اردو سیکشن تھا اور مولانا ابوالکلام آزاد کے مکمل کام کی تدوین تھی۔
جنوری 1967 میں انہوں نے اپنا سہ ماہی ادبی تنقیدی رسالہ تحریر شروع کیا اور اس کے مدیر کے طور پر دہلی کی علمی مجلس سے بھی وابستہ رہے۔ علمی مجلس اردو کے نوجوان محققین اور لکھاریوں پر مشتمل ہے۔
مرتے دم تک مالک رام بکثرت لکھتے رہے۔ اپنی وفات سے کچھ قبل انہوں نے اپنی پوری لائبریری جامعہ ہمدرد یونیورسٹی لائبریری، دہلی کو عطیہ کر دی۔ لائبریری میں ان کی کتب کو مالک رام مجموعے کے نام سے رکھا گیا ہے۔
ان کی وفات 86 سال کی عمر میں 16 اپریل 1993ء کو نئی دہلی میں ہوئی۔
ادبی زندگی اور کام
مرزا غالب
مالک رام نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ مرزا اسد اللہ خان غالب کے مطالعے میں گزارا۔ انہیں غالب کے نام سے جانا جاتا ہے۔ انہیں اردو ادب سے بالعموم اور مرزا غالب سے بالخصوص لگاؤ تھا۔ انہوں نے اردو اور فارسی میں غالب کے زیادہ تر کلام کی تدوین کی اور حاشیے بھی لکھے۔ ان میں سبدِ چین، دیوانِ غالب، گلِ رعنا اور خطوطِ غالب شامل ہیں۔
1938ءمیں انہوں نے غالب پر اپنے کام کو چھپوایا تو اس وقت ان کی عمر 31 سال تھی۔ ذکرِ غالب کتاب میں مالک رام نے غالب پر اپنی مہارت کا لوہا منوا لیا۔
یہ کتاب مالک رام کی زندگی میں پانچ مرتبہ چھپی۔ جامع تدوین کے بعد پانچویں ایڈیشن کو 1976ء میں شائع کیا گیا اور غالب پر تحقیقی اعتبار سے اسے سند مانا گیا ہے۔ تعلیمی دنیا میں مالک رام کو محض ایک تخلیق نے لازوال بنا دیا تھا۔ ابھی چھٹے ایڈیشن پر کام جاری تھا کہ زندگی نے مہلت نہ دی۔
مالک رام کی تصنیف Mirza Ghalib پہلی بار 1968ء میں نیشنل بک ٹرسٹ، انڈیا نے چھاپی اور اس کے بعد سے باقاعدگی سے چھاپا جا رہا ہے۔ اس کا اردو ترجمہ محمد اسماعیل پانی پتی نے پاکستان میں کیا ہے۔
تلامذہ غالب پہلی بار 1958ء میں شائع ہوئی اور اس میں غالب کے تمام 146 طلبہ کے بارے تفصیل سے بات کی گئی ہے اور ان کے نمونہ ہائے کلام بھی پیش کیے گئے ہیں۔
3 مئی 2010ء کو پاکستان کے مؤقر انگریزی روزنامے ڈان میں نقاد اور لکھاری رؤف پاریکھ نے اپنے مضمون
Tazkirah, Malik Ram and his passion for Ghalib
میں لکھا ہے کہ اردو ادب میں پہلی بار کسی شخصیت پر تحقیق کی ہے اور اس کتاب نے مالک رام کے لیے شہرت کی نئی بلندیاں عطا کی ہیں اور انہیں ‘غالب شناس‘ کا خطاب ملا ہے۔
پاریک نے لکھا:
” ایک عظیم شاعر کے تلامذہ کی حیات کے بارے کام کرنا اردو میں کوئی نئی بات نہیں مگر جتنی محنت اور عرق ریزی سے مالک رام نے غالب کے طلبا پر تحقیق کی ہے، وہ پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی اور اسی کاوش نے مالک رام کو غالب پر حرفِ آخر کا درجہ دلا دیا۔“
‘تلامذہ غالب‘ کے دوسرے ایڈیشن میں پہلے کی نسبت دو گنے صفحات ہیں اور یہ کتاب 1984ء میں شائع ہوئی جس سے غالب کے طلبہ کی تعداد 181 تک بڑھ گئی ہے اور اس میں 40 جزوقتی طلبہ کا بھی تذکرہ ہے۔ مالک رام کو 1984ء میں دہلی اردو اکیڈمی نے اردو انعام سے نوازا۔
غالب پر اپنے دیگر اہم کاموں میں مالک رام نے غالب کے صوفیانہ یا متنازع کلام کی اپنی تشریح پیش کی ہے اور ان میں فسانہ غالب (1977ء) اور گفتارِ غالب (1985ء) اہم ترین ہیں۔
1969ء میں غالب کے سو سالہ جشن کی تیاری کر رہے تھے۔ انہوں نے انگریزی میں دو خاص مضامین لکھے
(Ghalib: Man and Poet)
اور
(The Works of Ghalib)
جو اس موقع کی مناسبت سے تھے۔ یہ مضامین پریس انفارمیشن بیورو آف دی گورنمنٹ آف انڈیا نے شائع کیے اور اسے بین الاقوامی میڈیا کو بھی بھجوایا۔ مالک رام کی کتاب ‘عیارِ غالب‘ میں غالب پر 13 ُپرمغز مضامین ہیں جن میں سے دو مالک رام نے لکھے تھے، شائع ہوئی۔
اسی سال دیوانِ غالب کا نیا نسخہ بھی شائع ہوا جو غالب کی صد سالہ یادگار کی مناسبت سے تھا۔
مولانا آزاد
1965ء میں حکومت نوکری سے فارغ خطی کے بعد انہوں نے نئی دہلی میں مستقل رہائش اختیار کر لی اور ساہتیہ اکیڈمی میں شمولیت اختیا رکر لی جہاں تین سال کے دوران انہوں نے مولانا ابولکلام آزاد کے خطوط، تقاریر اور ادبی کاموں کے علاوہ مولانا کے چار جلدوں پر مشتمل قرآن کے ترجمے کی تدوین بھی کی۔ یہ کام ساہتیہ اکیڈمی نے چھاپے اور مالک رام کی وفات کے بعد بھی بہت بار شائع ہوئے ہیں۔
مالک رام نے مرزا غالب پر گہرائی میں تحقیقی مطالعہ شروع کیا۔ اپنے آخری برسوں میں انہوں نے مولانا آزاد کے اردو اور عربی کام پر بھی اسی عرق ریزی سے کام کیا۔ اب مالک رام کو مولانا آزاد پر بھی سند مانا جاتا ہے اور ان کی کتاب ‘کچھ مولانا آزاد کے بارے میں‘ مولانا کی حیات اور اور ان کے تخلیقی کام پر تھی اور 1989 میں شائع ہوئی۔ اس میدان میں تحقیق کرنے والے طلبہ کے لیے اس کتاب کا پڑھنا لازمی قرار دیا جاتا ہے۔
تحریر
جنوری 1967ء میں مالک رام نے سہ ماہی اردو ادبی ریویو قیام کیا جس کا نام ‘تحریر‘ رکھا گیا۔ 1978ء تک اس کے بند ہونے تک مالک رام اس کے مدیر رہے۔ اس تحقیقی مجلے میں علمی مضامین پیش کیے جاتے تھے جو علمی مسائل اور شخصیات کے بارے ہوتے تھے اور ہر میدان کے ماہرین انہیں لکھتے تھے۔ مالک رام اور ان کے رفقائے نے جن شخصیات پر تحقیقی کام کیے ہوتے تھے، ان پر خصوصی شمارے شائع کیے جاتے تھے۔ بہت سارے شمارے بطور کتاب بھی شائع ہوئے۔
مالک رام نے نوجوان محققین اور مصنفین کی ایک تنظیم ‘علمی مجلس‘ کی حمایت بھی جاری رکھی اور انہیں اصلی تحقیقی مواد پیش کرنے کی اہمیت سمجھائی اور ‘تحریر‘ کی تمام پبلیکشنز پر ‘علمی مجلس‘ کی مہر لگی ہوتی تھی۔
17 اپریل 1972ء میں نئی دہلی کے مشہور انگریزی روزنامے ‘دی سٹیٹس مین‘ میں مالک رام کی شخصیت پر لکھا:
” اردو تحقیق کی ترقی کے لیے مالک رام کی شراکتیں اہم ہیں۔ انہیں محققین کی صفِ اوّل میں شمار کیا جاتا ہے اور ان کی اہم ترین خدمات میں سے ایک نوجوان محققین کی مجلس کا قیام ہے۔ ان کا سہ ماہی ‘تحریر‘ ہر اس جگہ پڑھا جاتا ہے جہاں اردو پڑھی جاتی ہے۔ “
سید سلیمان ندوی نے اپنے دور میں ‘معارف‘ میں باقاعدگی سے تذکرہ جات لکھے تھے اور انہی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے مالک رام نے اس شاخ کو مقبولِ عام بنا دیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے ‘تحریر‘ میں ‘وفیات‘ کے عنوان سے ایک حصہ مختص کیا ہوا تھا۔
انہی تذکرہ جات کو وسعت دے کر انہوں نے اپنے چار جلدوں پر مبنی ‘تذکرہ معاصرین‘ کی شکل میں پیش کیا جس میں 219 اردو شعرا اور ادبی شخصیات کا تذکرہ تھا جو 1967ء سے 1976ء کے دوران وفات پائی۔ اس اعلٰی ادبی کام پر انہیں 1983ء میں ساہتیہ اکیڈمی اردو ایوارڈ دیا گیا۔
2010ء میں تذکرہ معاصرین کے تمام چاروں حصہ ملا کر ایک ساتھ پیش کیے گئے جس میں کل صفحات کی تعداد 1060 تھی اور اسے راولپنڈی سے شائع کیا گیا۔ تحریر کا آخری شمارہ دسمبر 1978ء میں شائع ہوا۔ بارہ سال کے دوران کل 46 شمارے شائع ہوئے تھے۔
مالک رام نے اپنی صحت کے پیشِ نظر اس مجلے کی اشاعت کو تمام کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ انہوں نے اس رسالے کو اپنے وسائل سے شائع کرایا اور کوئی اور اس کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں تھا۔
معاصرین پر کام
مالک رام نے زندہ اردو ادیبوں کو بھی نظرانداز نہیں کیا۔ انہوں نے مستند اردو ادیبوں اور شعرا پر چھ تجزیاتی بائیوگرافیکل کام پیش کیے۔ یہ کام پہلے تحریر میں سلسلہ وار پیش ہوتا رہا تاکہ اسے ادبی سند مل سکے۔ اس بارے ‘علمی مجلس‘ کا جمع کیا گیا تخلیقی مواد پہلی بار استعمال کیا گیا۔
1970: جگر بریلوی – شخصیات اور فن (1890–1976) معاون مدیر: سیفی پریمی
1973: جوش ملسیانی – شخصیات اور فن (1884–1976)
1974: سید مسعود حسن رضوی ‘ادیب‘ – ذات و صفات (1893–1975)
1974: رشید احمد صدیقی – کردار، افکار، گفتار (1894–1977)
1974: ل۔ احمد اکبر آبادی (1885–1980)
1977: ضیا فتح آبادی – شخص اور شاعر (1913–1986)
مالک رام نے چھ توصیفی جلدیں بھی پیش کیں جو معاصرین ادبی شخصیات اور تعلیمی شخصیات کے بارے تھیں۔ ہر جلد میں انہوں نے اپنا تحقیقی مواد پیش کیا۔
نظرِ ذاکر: ذاکر حسین، 1897–1969، عالم اور انڈیا کے تیسرے صدر جو 13 مئی 1967 تا 3 مئی 1969 اپنی وفات تک رہے
نظرِ عابد: سید عابد حسین، 1896–1978، معلم، پلے رائٹ، مترجم۔ ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ برائے اردو، 1956
نظرِ عرشی: امتیاز علی خان ‘عرشی‘، 1904–1981، بیسویں صدی کے صفِ اوّل کے اردو محقق۔ ساہیتہ اکیڈمی ایوارڈ برائے اردو، 1961۔ معاون مدیر: مختار الدین احمد
نظرِ زیدی: بشیر حسین زیدی، 1898–1992، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور اردو عالم
195نظرِ حمید: حکیم عبد الحمید، 1908–1999، انسان دوست، ماہرِ تعلیم، طبیب، لکھاری، جامعہ ہمدرد اور ہمدرد )وقف(، انڈیا کے بانی
نظرِ مختار: مختار الدین ‘آرزو‘، 1924–2010، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں عربی کے پروفیسر اور اردو اور عربی کے عالم
یہ توصیفی اور دیگر تخلیقی کام اور علمی مجلس کے بائیوگرافیکل شمارے اور ان کے شائع ہونے کی تاریخیں اوپن لائبریری کی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔
حموربی
1950/51 میں مالک رام کی تقرری عراق میں ہوئی تھی جہاں انہیں بابل کی تہذیب اور ثقافت اور بالخصوص حموربی کے قوانین کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا۔ حموربی بابل کا چھٹا بادشاہ تھا۔ مالک رام کو حموربی کے قوانین نے بہت متاثر کیا اور عراق سے واپسی پر اس کا خصوصی مطالعہ کیا۔
1952 اور 1955 کے درمیان مالک رام نے حموربی پر اردو زبان میں چھ مضامین لکھے جن میں حموربی کے قوانین، بابل کی تہذیب، روایات، رسومات اور زبان پر روشنی ڈالی گئی۔ ان میں سے پانچ کراچی کے تاریخ سے متعلق مجلے تاریخ و سیاسیات میں شائع ہوئے۔ چھٹا کراچی کے ایک دوسرے اردو مجلے میں شائع ہوا۔ اس موضوع پر اردو میں پہلی بار کسی نے اتنی تفصیل سے توجہ دی تھی۔
ان چھ مضامین پر نظرِ ثانی کے بعد انہیں ایک کتاب کی شکل میں سنہ 2000ء میں شائع کیا گیا۔ اس کا نیا ایڈیشن لاہور میں ‘حموربی اور بابلی تہذیب و تمدن‘ کے نام سے چھاپا گیا۔
مالک رام نے حموربی کو تاریخ کی عظیم ترین شخصیات میں سے ایک گردانا ہے جسے جدید دنیا، تعلیمی اداروں اور میڈیا میں زیادہ توجہ، مقام اور وقت دیا جانا چاہیے۔
اسلامیات
مالک رام کو اسلامی ثقافت اور ادب پر بھی خاصا عبور حاصل تھا۔ انہوں نے اپنی زندگی کی دو دہائیاں مشرقِ وسطیٰ میں گزاریں اور جہاں انہوں نے بہت زیادہ سفر کیا اور عربی زبان پر عبور حاصل کیا۔ انہوں نے اسلامی ادب، روایات اور رسومات پر بہت سارے مضامین لکھے۔ اسلامی امور سے متعلق ان کی دو کتب ہر خاص و عام کے لیے مفید ہیں۔
‘عورت اور اسلامی تعلیم‘ میں انہوں نے اسلام میں عورت کے حقوق اور مقام پر گہرائی سے بحث کی ہے جس میں عورت کو بطور بیٹی، بیوی، ماں، مطلقہ اور وارث کی حیثیت سے دکھایا گیا ہے۔ یہ کتاب لکھنؤ میں پہلی بار 1951ء میں اردو زبان میں شائع ہوئی۔ نظرِ ثانی کے بعد دوسرا ایڈیشن 1977 میں دہلی سے چھپا اور اسے بعد ازاں لاہور سے بھی چھاپا گیا۔
اسے انگریزی زبان میں Woman in Islam کے نام سے ترجمہ کر کے حیدرآباد، دہلی اور نیو یارک سے شائع کیا گیا۔
عربی زبان میں اسے ‘المراۃ فی السلام‘ کے نام سے قاہرہ میں 1958 میں شائع کیا گیا اور اس کا دوسرا ایڈیشن نئی دہلی میں 1990 میں شائع ہوا۔ اسلامی تنظیمیں اس کتاب کو اس موضوع پر سند مانتی ہیں جو سہل انداز سے پیش کی گئی ہے۔
1984 میں انہوں نے اسلامیات کے حوالے سے دوسری اہم تخلیق پیش کی جس کا نام ‘اسلامیات‘ تھا۔ اس میں اسلام اور اسلامی روایات کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی تھی۔
علمی رفاقت
مصر میں اسکندریہ میں مالک رام نے 1939 تا 1955 کل پندرہ سال گزارے۔ یہاں وہ YMCA کی مینیجنگ کمیٹی کے ارکان رہے اور شہر دوسری جنگِ عظیم کے دوران بالخصوص ادبی سرگرمیوں کو زندہ رکھا۔ مالک رام نے اسکندریہ کے وائی ایم سی اے میں مذہبی امور سے متعلق سیمناروں میں ‘اسلام میں عورت کا مقام‘ پر کئی لیکچر دیے۔
انہی لیکچروں کو اپنی کتاب ‘عورت اور اسلامی تعلیم‘ میں جمع کیا ہے۔
بین الاقوامی پین فاؤنڈیشن کے انڈیا چیپٹر میں مالک رام نے باقاعدگی سے حصہ لیا۔ انڈیا میں اس انجمن کا قیام صوفیا واڈیا کی کوشش سے ہوا۔ یاد رہے کہ صوفیا واڈیا بین الاقوامی پین فاؤنڈیشن کی بانی رکن بھی رہی ہیں۔ یہ انجمن شعرا، لکھاریوں، مدیران، افسانہ نگاروں اور ناول نگاروں کے لیے بنائی گئی تھی۔ کئی سال تک مالک رام انڈین پین کے ترجمان بھی رہے۔ 1972 میں مجلے نے لکھا:
مشہور اردو ادیب مالک رام نے پین کے دہلی گروپ اردو ادب کے ساتھ اپنی عمر بھر کے ساتھ کے بارے بات کی اور بتایا کہ کیسے انہوں نے عربی اور فارسی سیکھی تھی۔ ان کی عمر بارہ برس تھی جب انہیں ایک استاد نے اسکول کی لائبریری کی ذمہ داری سونپی تھی۔ اس لائبریری میں تین سے چار سو کتب موجد تھیں جن میں زیادہ تر کہانیاں اور داستانیں تھیں جنہیں مالک رام نے چند ماہ میں پڑھ ڈالا۔ بچپن سے انہیں مطالعے کا شوق تھا جس نے انہیں اوائل عمری سے ادب سے وابستہ کر دیا تھا۔
انہیں برطانیہ اور آئرلینڈ کی رائل ایشیاٹک سوسائٹی کی رکنیت بھی ملی ہوئی تھی۔
1973 سے 1982 تک وہ ساہتیہ اکیڈمی جنرل کونسل اور ایگزیکٹو کمیٹی کے ارکان رہے۔ 1977 میں انہیں جامعہ اردو، علی گڑھ کا پرو چانسلر مقرر کیا گیا اور وہ اس کی جنرل کونسل کے رکن پہلے سے ہی تھے۔ 1986 میں انہوں نے کورٹ آف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے رکن کے طور پر فرائض سر انجام دیے تھے۔
مالک رام ہمیشہ سے نئی دہلی میں غالب سے منسوب دو مشہور اداروں کے ساتھ شامل رہے جن کے نام غالب انسٹی ٹیوٹ اور غالب اکیڈمی ہیں۔ غالب اکیڈمی کو 1969 میں حکیم عبد الحمید نے قائم کیا جو جامعہ ہمدرد کے بانی ہیں۔ مالک رام نے اس ادارے کے امور میں اہم کردار ادا کیا اور زیادہ تر پسِ منظر میں رہ کر اپنے فرائض سر انجام دیتے رہے جو اس ادارے کے قیام سے مالک رام کی اپنی وفات تک کے عرصے پر محیط تھے۔ اکیڈمی نے ان کے بارے ‘غالب شناس مالک رام‘ کے نام سے ان کی وفات کے کئی سال بعد ایک کتاب شائع کی۔
1983 سے 1987 تک مالک رام طویل عرصے سے قائم اور موقر ‘انجمن ترقی اردو (ہند) کے صدر بھی رہے۔ یہ آزاد ادارہ جس کی ملک بھر میں 600 سے زائد شاخیں ہیں، خود مختار ہے اور اردو کی ترقی کے لیے کام کرتا ہے۔
ادبی ایوارڈ
مالک رام کو ان کی زندگی کا پہلا ادبی انعام ایک کلائی گھڑی کی صورت میں ملااس مضمون پر ملا، جو انہوں نے اپنے طالب علمی کے دور میں 1925ء میں لکھا۔ اس مضمون کا نام ‘مذہب اور دلیل‘ تھا۔ علی جواد زیدی نے ارمغانِ مالک میں لکھا کہ یہ ان کے لیے بہت اہم تھا۔ بعض اہم اردو ادبی ایوارڈ (ان کی تفصیل مالک نامہ – مالک رام کی ادبی خدمات، تدوین بشیر حسین زیدی)
اتر پردیش حکومت: گلِ رعنا (1971)
اترپردیش اردو اکیڈمی، لکھنؤ: تذکرہ معاصرین – جلد اوّل (1973)
اترپردیش اردو اکیڈمی، لکھنؤ: واہ صورتیں الہٰی (1974)
ساہیتہ کالا پرساد، دہلی: اردو ایوارڈ (1975)
بہار اردو اکیڈمی، پٹنہ: تزکرہ معاصرین – جلد دوم (1975)
ادارہ غالب، نئی دہلی، غالب ایوارڈ (1976)
میر اکیڈمی، لکھنؤ: امتیازِ میر ایوارڈ (1977)
میر اکیڈمی، لکھنؤ: افتخارِ میر ایوارڈ (1981)
اترپردیش اردو اکیڈمی، لکھنؤ: تذکرہ معاصرین – جلد چہارم (1982)
ساہیتہ اکیڈمی )خطوط کی قومی اکیڈم(، نئی دہلی: اردو ایوارڈ برائے تذکرہ معاصرین – جلد چہارم (1983)
اردو اکیڈمی، دہلی: تلامذہ غالب (1984)
بہار اردو اکیڈمی، پٹنہ: اردو ادب کے لیے خدمات (1984*85)
ڈاکٹر ذاکر حسین اردو انعام: اردو ادب اور تحقیق (1987)
تاہم یہ فہرست ادھوری ہے اور 1987 تا 1993 والے انعامات اس میں ہنوز شامل نہیں ہو پائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترتیب و انتخاب و پیشکش
نیرہ نور خالد