آنند بخشی کا پورا نام آنند پرکاش بخشی تھا۔ 21 ، جولائی 1930 میں پاکستان کے شہر روالپنڈی میں پیدا ھوئے۔ وہ نسلا کشمیری تھے۔ ان کے والد سپرنڈنڈٹ پولیس تھے۔ جب وہ بیس سال کے تھے تو ان کی والدہ انتقال کرگئی تھی۔ 2، اکتوبر 1947 میں تقسیم ہند کے بعد لکھنو ہجرت کرگئے۔ اس وقت ان کی عمر اکیس/ 21 سال تھی قبل تقسیم آنند بخشی دو/2 سال رائل انڈیں نیوی میں بھی فرائص انجام سے چکے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ کراچی میں بھی قیام پذیر رھے۔ تقسیم ہند کے بعد وہ ہندوستان کی بری فوج میں شامل ھو گئے۔ شروع مین وہ جبل پور فوج کے " سگنلز کروپس" میں فرائس انجام دیتے رھے۔ یہاں چھس سال ملازمت کرنے کے بعد وہ فوج کی پیادہ فوج ( انفٹری) اور ای۔ ایم۔ ای میں بھی رھے۔ جب وہ فوج کی " سگنلز کروپس" میں کام کرتے تھے تو ان کا کہنا تھا "یہ میری زندگی کا مطمع نظر ھے کہ امیر یا غریب کی زندگی کا کوئہ کوئی ہدف ھونا چاہیے۔
آنند بخشی نے 6 مارچ 1943 میں کیمرج کالج روالپندی کو خیر باد کہا۔ 4 اپریل 1946 میں انھیں ممبئی میں رائل نیوی کی بغاوت کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا۔ انھوں نے 16 فروری 1951 میں فوج سے استعفا دے دیا۔ 2 اکتوبر 1954 کو آنند بخشی نے اپنی روالپنڈی کی ایک پڑوسن کملا موہن سے شادی کی۔ اکتبوبر 1956 میں وہ ساٹھ (60) گیتوں کے ساتھ ممبئی آئے۔ مگر وہ ایک عرصے تک بے روزگار رھے۔ وہ ممبئی میں دادار کے ریلوے اسٹیشن اور میریں ڈرائیو اسٹیشن کی "بینچون" کر بیٹھ کر اپنے خواب اور گیت لکھتے رھے۔ شاہد صدیقی نے لکھا ہے ۔" آنند بخشی نے موٹر مکینک اور ٹیلی فون آپریٹر کے طور پر بھی کام کیا اور ساتھ ہی ساتھ بمبئی میں اپنے شوق کی تکمیل کے لیے کوششیں جاری رکھیں‘ لیکن کامیابی کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی تھی۔
پھر ایک روز اس نے واپس فوج میں جانے کا ارادہ کیا کیونکہ اس کے پاس پیسے ختم ہو چکے تھے اور رہنے کا کوئی ٹھکانا بھی نہ تھا۔ شہر چھوڑنے کا وقت آچکا تھا۔ اب وہ ریلوے سٹیشن پر بیٹھا گاڑی کا انتظار کر رہا تھا۔ اس کی زندگی کا خواب بکھرنے جا رہا تھا کہ اس کی زندگی میں اچانک ایک معجزہ رونما ہوا۔ اس ریلوے سٹیشن پر ایک ٹکٹ کلیکٹر‘ جس کا نام چترامل تھا‘ اس سے ملا۔ تعارف کے بعدجب آنند بخشی نے بتایا کہ کیسے وہ گیت گانے اور گیت لکھنے کا شوق لے کر یہاں آیا تھا لیکن اب مایوس ہو کر واپس جا رہا ہے تو چترا مل نے آنند بخشی کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا: گھبرائو نہیں تم ایک دن ضرور بڑے گیت کار بنو گے اور جہاں تک رہائش اور کھانے پینے کا تعلق ہے آج سے تم میرے ساتھ رہو گے۔ یہ کہہ کر چترا مل نے آنند کا ہاتھ پکڑا اور انہیں اپنے کوارٹر میں لے گیا جہاں وہ دو سال رہا۔ اس دوران مایوسی کے کتنے ہی موڑ آئے لیکن چترا مل نے ہمیشہ اس کا حوصلہ بڑھایا۔ آخر آنند بخشی کی زندگی میں وہ دن آ ہی گیا جس کا اسے بے صبری سے انتظار تھا۔ یہ 1958ء کی بات ہے برج موہن اپنی فلم ''بھلا آدمی‘‘ بنا رہے تھے جس میں بھگوان دادا ہیرو کا کردار ادا کر رہے تھے۔ کہتے ہیں اس روز فلم کے گیت کار غیر حاضر تھے۔ آنند بخشی ہمیشہ کی طرح کام کی امید میں مختلف سٹوڈیوز کے چکر لگا رہا تھا۔ گیت کار کی غیر حاضری کی وجہ سے فلم ساز پریشان تھا۔ آنند بخشی نے پیشکش کی کہ وہ فلم کے لیے گیت لکھ سکتا ہے۔ یوں آنند بخشی کو گیت نگاری کا پہلا موقع ملا۔
اس نے وہیں بیٹھے بیٹھے فلم کے لیے چار گیت لکھ دیے۔ پہلا گانا ''او دھرتی کے لال‘‘ تھا‘ جسے آنند بخشی کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا۔ یہ آنند بخشی کا بمبئی کی فلمی دنیا میں پہلا قدم تھا" {آنند بکشی اور پنڈی کا عشق، روزنامہ دینا لاہور،یکم جنوری 2020}۔ان کی پہلی نظم ایک فوجی رسالے " سنگ سماچار" میں شائع ھوئی۔۔ ان کا پہلا گیت ۔۔۔" دھرتی کے لال نہ کر اتنا ملال" ۔۔۔ تھا جو 9 نومبر 1956 میں ریکارڈ ھوا۔ ان کو اداکار بھگوان نے فلمی دینا سے متعارف کروایا۔ اور انھیں فلم " بڑا آدمی" کے گیت لکھنے پر 150 روپیہ کا معاوضہ ملا۔ ان کی پہلی فلم " بدلا ادمی" (1958) تھی۔ ان کو 1965 میں فلم " جب جب پھول کھلے" کے لکھے ھوئے گیتوں سے ان کو شہرت ملی۔ آنند بخشی نے 650 فلموں میں 3500 گیت کھے۔ 1972 میں انھوں نے فلم " موم کی گڑیا" میں گیت لکھا اور اس گیت کو گایا بھی تھا۔ گیت کے بول یہ تھے۔
" باغوں مین بہار آئی۔۔۔۔ ھونٹوں پہ پکار آئی" ۔۔۔ انکو گیتوں پر چار بار فلم فیئر ایوارڈ سے نوازہ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ " آدمی مسافر ھئ" ( اپنا پن، 1977) ۔۔۔ " تیرے میرے بیچ میں کیسا ھے" ( اک دوجے کے لیے، 1981) ' تجھے دیکھا تو تو جانا ضم' 0 دل والے سہلنیا لے جائیں گے 1995)۔۔ "عشق بنا" (تال، 1999)، ان کے چالیس فلموں کے گیتوں پر انھیں فلم فیئر فلم ایوارڈ کے لیے نامزد بھی کیا گیا۔۔۔۔ "ساون کا مہینہ " (ملن 1968)، " کورا کاغذ تھا' ( ادرھنا 1970) ۔۔" آنے سے اسکے آئی بہار جانے سے اس کے" (جینے کی راہ، 1970)، " بندیا چملے کی" (دو راستے 1971)، " نہ کوئی امنگ ھے" ( کٹی پتنگ،1972)، " چنگاری کوئی بڑھکے (امر پریم، 1973)، " ھم تم ایک کمرے میں بند ھوں "( بابی،1974)، " میں شاعر تو نہیں"( بابی 1974)، " گااڑی بلارھی ھے" ( دوست 1975)، " آئے گی ضرور چھٹی" ( دلہن۔ 1976)، " محبوبہ، محبوبہ،" ، (شعلے 1976)" میرے نیناں ساون بھاگو ( محبوبہ، 1977)، " پردہ ھے پردہ ھے" (امر، اکبر انتھونی 1978)، " میں تلسی میرے آنگن کی" ( مین تلسی تیرے آنگن کی، 1979)، " ساون کے جھولے پڑتے' (جرمانہ، 1980)، " ڈفلی والے، ڈفلی بجا ' ( سرگم 1980)، " شیشہ ھو یا دل ھو ٹوٹ جاتا ھے"( آشا، 1981،) " ۔ او شانتی اوم ( قرض 1981)، " درد دل درد جگر ( قرٖض، 1981)،" یار آرھی ھے، تیری یاد آرھی ھے" ( لو استوری، 1982)، " جب ھم جوان ہون گے" (بے تاب 1984)،" سوہنی چناب دے" (سوہنی مہیوال 1985) ،" زندگی ہر قدم (میری جنگ 1987)، " لگی آگ ساون کی' (چاندنی، 1990)، " چولی کے پیچھے کیا ھے ( کھل بائیک 1984)، " جادو تیری نظر (درد، 1994)، " تو چیز ھے بڑی ھے مست مست" ( مہرہ، 1995)، " گھر آجا پریسی"( دل والے دلہنیا کے جائیں گے، 1996)، " بھولی سی صورت"، ( دل تو پاگل ھے 1998) ، " آئی لو مائی انڈیا" ( پردیس 1998) ، ' تال سے تال ملا ،0تال 2000)، " ھم کوھم سے چرالو" ( محبتیں، 2001)، " اڈجا کالے کؤے، ( غدر، ایک پریم کتھا، 2002)۔ آنند بخشی کی آخری فلم محبوبہ تھی۔ آنند بخشی نے تقریبا تما م گیت اردو میں لکھے۔ آنند بخشی نے فلم جان، ودھاتا، چرس، مہاچور، موم کی گڑیا، میں گلوکاری کے علاوہ فلم " پکنک" میں اداکاری ھی کی۔ اور بحثیت ایکشن ڈائڑکٹر فلم آرزو، میں کھلاڈی تو اناادی، پریم پتریکا، شہنشاہ میں بھی کام کیا۔۔ روالپندی سے ان کو بہت لگاو تھا، اور وہ اس سلسلے میں وہ " ناسٹلجیا' کا بھی شکار تھے اور وہ اکثر روالپنڈی کے علاقون کمپنی باغ ( اب لیاقت میدان)، گورڈن کالج اور ہاوڑہ بازار کا زکر کرکے آبدیدہ بھی ھوجاتے تھے۔ وہ احسان دانش اور بسمل سعیدی سے اپنی شاعری پر اصلاح بھی لیتے رھے۔ آنند بخشی اردو غزل بھی بھی اچھی لکھتے تھے۔ ان کی ایک غزل ملاخظہ ھو:
میں کوئی برف نہہیں ھوں جو بگل جاؤں کا
میں کوئی حرف نہیں ھوں جو بدل جاؤں گا
چاند سورج کی طرح وقت پر نکلا ھوں مین
چاند سورج کی طرح وقت پر ڈھل جاوں گا
قافلے والے مجھے چھوڑ گئے ہیں پیچھے
قافلے والوں سے آگے میں نکل جاؤں گا
روک سکتی ھے روک لے دنیا بخشی
آنند بخشی ایک دررمند انسان تھے۔ ایک واقعہ سناتا ھوں جس سے ان کی وسیع القلبی کا اندازہ آپ کو ہوجائے گا۔ ھوا یوں کی راجہ مہدی علی خان ایک فلم کے لیے گانے لکھ رھے تھے ۔ ابھی اس فلم کا آخری گانا لکھنا باقی تھا کہ راجہ مہدی علی خان کا انتقال ہوگیا۔ تو فلم کے پروڈوسر اور ہدایت کار نے آنند بخشی کو اس فلم کا آخری گانا لکھنے کو دیا۔ آنند بخشی نے یہ گانا لکھا اور اس سے جو رقم ملی اسے راجہ مہدی علی خان کی بیوہ اختری بیگم کو دے دی۔
میں تو جادو ھوں، جادو ھوں میں چل جاؤں گا
زندگی کے آخری دنوں میں آنند بخشی دل اور پھپڑوں کے مرض میں مبتلا ھو گئے۔ اس کی ایک بڑی وجہ ان کی کثرت سکریٹ نوشی تھی ۔ لہذا ان کو ۔۔۔۔ " بیکٹریل انفیکشن" ھوا اور ممبئی کے ناناوتی ہسپتال میں داخل کیا گیا۔ ان کے دل اور پھپٹروں نے کام کرنا چھوڈ دیا تھا۔ آنند بخشی کا انتقال 30 مارچ 2002 صبح آتھ بجے نانا وتی ہسپتال میں ھوا۔۔ انتقال کے وقت ان کی عمر 72 سال تھی