شکیلؔ بدایونی کی خود و نوشت سے ان کا مختصر تعارف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری پیدائش جمعرات 03 اگست 1916ء کو یو پی کے شہر بدایوں میں ہوئی۔
میرا نام غفار احمد ہے مگر گھر والوں نے میرا نام شکیل احمد رکھ دیا۔میرا تخلص شکیلؔ ہے۔
بچپن میں کچھ عرصہ تخلص صبا اور فروغ بھی رکھ چکا ہوں۔
میرے والد کا نام مولوی جمیل احمد قادری سوختہ تھا۔جو بمبئی میں بیس سال خوجہ سنی مسجد کے خطیب رہے اور وہیں ان کا انتقال بہ عارضہ ذیابیطس 30 جولائی 1939 میں ہوا۔
میری اولاد میں پانچ بچے ہیں تین بیٹیاں رضیہ شکیل،صفیہ شکیل اور نجمہ شکیل۔ دو بیٹے جاوید شکیل اور چارق شکیل ہیں۔(شکیل صاحب کے انتقال کے بعد ان کی تیسری بیٹی نجمہ شکیل اچانک بیمار ہوئیں اور چند دن بعد اللہ کو پیاری ہو گئی)
ابتدائی تعلیم
ابتدا میں اپنے گھر پر قرآن کریم اور فارسی اور اردو کی تعلیم میردہ محلے کے مولوی عبدالغفار سے حاصل کی۔انگریزی تعلیم اپنے پڑوسی بابو رام سے شروع کی اور پھر اپنے گھر پر اجھیانی کے ماسٹر رفیق احمد سے ان کے بعد ناگراں محلے کا اکابرقر خاندان کے اختر علی خان سے حاصل کی۔1925ء میں اپنے والد کے ساتھ کچھ عرصہ کیلۓ بمبئی گیا۔یہ میرا پہلا سفر تھا۔ بدایوں میں واپس آ کر 1928ء میں میسٹن اسلامیہ ہائی سکول میں چوتھے درجے کا داخلہ لیا۔اس کے بعد دوسری مرتبہ والد صاحب کے ساتھ بمبئی آیا اور وہاں میں نے 1931ء میں یعقوب سکول اور پاپولر ہائی سکول میں تعلیم حاصل کی۔بمبئی میں ایک سال رہنے کے بعد واپس آ کر میٹسن ہائی سکول بدایوں میں 1932ء میں ساتویں کلاس میں داخلہ لیا۔میرا سب سے پسندیدہ کھیل ہاکی تھا۔1935ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔میٹرک کے بعد قیصر حسین قادری کی بیٹی سلمہ سے میری شادی کر دی گئی۔شادی کے بعد فرسٹ ائیر 1937ء میں علی گڑھ سے پاس کیا۔اور 1939ء میں ایف اے کیا۔1942ء میں بی اے کیا۔اس وقت کا عالم یہ تھا کہ میرا اور میری والدہ کا بار میرے خسر قیصر حسین قادری برداشت کر رہے تھے۔پھر سپلائی کے محکمے میں مجھے کلرک کی نوکری مل گئی
میں نے جب ہوش سنبھالا تو بدایوں کے ادبی ماحول میں یہ نام شامل تھے۔بیخودؔ دہلوی جو داغؔ کے شاگرد تھے۔نوؔابدایونی جو مرحوم ہو چکے تھے اور فانی بدایونی جن کے دم سے بدایوں کا نام روشن تھا۔میرے بچپن میں بدایونی اور اس کی تحصیل میں بڑے بڑے مشاعرے ہوا کرتے تھے جن میں شرکت کے لۓ باہر سے بڑے بڑے شعراء آیا کرتے تھے۔ان مشاعروں میں جگرؔ مرادآبادی،قمرؔ جلالوی،بہزاد لکھنوی،سیمابؔ اکبر آبادی ان کے صاحبزادے اعجاز صدیقی،ساغر نظامی،ماہر القادری اور فرخ بنارسی کا بہت رنگ جمتا تھا۔
میں بچپن میں ہی شعر گوئی میں اتنا ماہر ہو چکا تھا کہ اکثر اپنے سکول کے تقریری مقابلے میں نظموں کے زریعے تقریر کیا کرتا تھا۔مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ مسٹن اسلامیہ ہائی سکول میں ایک مباحثہ طلبہ کے لۓ منعقد کیا گیا تھا۔اس مباحثے کا عنوان تھا"امیر اور غریب"میں نے غریبوں کی طرف داری میں ایک نظم کہی تھی۔اس نظام کا ایک شعر یاد رہ گیا ہے اس شعر میں میں نے امیروں پر ایک فقرہ چست کیا تھا ملاحظہ فرمائیں۔
ہو کے ماخوذ کسی جرم میں مجرم ٹھریں
نہ کرے کوئی ضمانت تو مزہ آ جاۓ
اس کے بعد میں نے غزلیں کہنا شروع کیں۔اس دور کے کی غزلیات میرے پاس نہیں ہیں صرف دو غزلوں کا ایک ایک شعر یاد رہ گیا
کہاں سے لاؤں زبان عرض مدعا کے لۓ
ذرا تو مان لو کہنا مرا خدا کے لۓ
۔۔۔۔۔۔
بھلا دوں دل سے شکیل اب جواب خط کا خیال
امیدِ واپسی نامہ بر نہیں ہوتی
مجھے مشاعروں میں پڑھنے کا شوق پیدا ہو گیا اور ضلع بدایوں کے چھوٹے چھوٹے قصبات میں جو مشاعرے ہوا کرتے تھے ان میں شرکت کے لۓ غزلیں پڑھنے لگا تھا۔پہلے میں نے اپنا تخلص "صبا" رکھا تھا پھر "فروغ" اور بعد میں " شکیل" ہی پسند آیا۔جب تخلص فروغ تھا تو ایک قطعہ کہا تھا جس کے دو مصرعے یاد رہ گۓ
خوشا نصیب،نہیں عادت فروغ مجھے
شکیل کہتے ہیں سب اس لۓ فروغ مجھے
میری شاعری کے استاد مولانا ضیا القادری ہیں جن کی نگرانی میں میں بدایوں میں رہتا تھا۔مولانا ضیا القادری چونکہ نعت و منقبت کے شاعر تھے اس لۓ جب وہ میرے کلام کی اصلاح کرتے تھے تو میری غزل نے عاشقانہ سے صوفیانہ اور عارفانہ رنگت اختیار کر لی تھی۔ اس کا ثبوت میری ابتدائی غزل کا یہ مقطع ہے۔
اللہ اللہ فیضِ تعلیمِ ضیا سے اے شکیلؔ
خود بخود رنگِ تغزل عارفانہ ہو گیا
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میری پہلی غزل 1931ء میں بمبئی کے ایک مشہور رسالے "شان ہند" میں شائع ہوئی تھی۔ جس کے ایڈیٹر صحبزادہ عبدالقیوم صاحب تھے۔اس وقت مجھے بے انتہا مسرت ہوئی تھی۔
میرا پہلا مجموعہ "رعنائیاں" 1944ء میں کتب خانہ عزیزیہ کے مالک مولانا محمد سمیع اللہ قاسمی نے شائع کیا تھا۔
1946ء کے ابتدائی کسی ماہ میں طیبہ کالج کی تحریک کے سلسلے میں ایک مشاعرہ بائیکلہ کے صدیق انسیٹیوٹ میں منعقد ہوا۔مجھے بھی مدعو کیا گیا یہ بمبئی سے میرے لۓ کسی مشاعرے کا پہلا دعوت نامہ تھا۔چناچہ میں اپنے دفتر سے چھٹی لے کر بمبئی آیا اور مجھے مشاعرے والوں نے باندرہ کے کارٹر روڈ پر طاہر خان صاحب کے ہاں ٹھرایا گیا۔طاہر خان صاحب یوپی کے باشندے تھے لیکن ان کا کاروبار بمبئی میں عروج پر تھا وہ بڑے رئیس تھے۔اور یوپی کے باشندگان کی ایسوسی ایشن کے صدر تھے۔اردو ادب میں انہیں خاصا لگاؤ تھا۔
اس مشاعرے میں ہندوستان کے اور بھی معروف شعراء شریک تھے۔مثلاۤ جگرمرادآبادی،ماہر القادری۔نوح ناروی وغیرہ۔اس مشاعرے سے ایک سال قبل مجروح سلطان پوری اور خمار بارہ بنکوی بمبئی آ کر بس چکے تھے اور کاردار کی فلم "شاہجہان" کے لۓ گیت لکھ رہے تھے۔نخشب بھی موجود تھے جنکی لکھی عورتوں کی پہلی قوالی"آہیں نہ بھریں شکوے نہ کیے"ملک میں بے پناہ مقبول ہو چکی تھی۔جو انہوں نے شوکت عزیز کی فلم "زینت: کے لیے لکھی تھی۔ساغر نظامی اس وقت فضلی فلمز میں فضلی صاحب کے یہاں نغمہ نگار اور مکالمہ نگار کی حیثیت سے ملازم تھے اور فلم "مہندی" میں گیت اور مکالمے لکھ رہے تھے۔طیبہ کالج مشاعرے کے دوسرے دن فضلی صاحب نے اپنی زیر تکمیل فلم "مہندی" کے لۓ ایک مشاعرہ فلمایا اس فلم کے ہیرو الطاف اور ہیروئن پارہ تھیں۔اس فلم میں ہونے والے مشاعرے کے لۓ فضلی صاحب نے مجھے اور مجروح سلطان پوری،بہزاد لکھنوی،جگر مراد آبادی،جوش ملیح آبادی اور ماہر القادری کو مدعو کیا تھا۔کاردار اسٹوڈیو میں رات بھر اس مشاعرے کی شوٹنگ ہوئی۔اس کا معاوضہ مجھے سات سو روپے ملا۔میں نے زندگی میں پہلی بار یک مشت سات سو روپے پاۓ تو خوشی سے اچھل پڑا۔اور گھر آ کر اپنی والدہ اور دیگر اعزاء کو جب روپے دکھاۓ تو بہت خوش ہوۓ۔اس روز میں سمجھا کہ شاعری مجھے راس آئی ہے۔
دہلی میں مسلم لیگ اور کانگریس کی سیاسی فضا ہر چھوٹے بڑے کو متاثر کۓ ہوۓ تھی۔اس فضا نے ہندو مسلم تفریق پیدا کر دی تھی۔میرے اور دفتر کے کلرکوں میں بھی فرقہ واریت کا زہر پھیلا ہوا تھا۔چونکہ میں فطرتاۤ فرقہ واریت سے نفرت کرتا تھا اس لۓ دفتر کا ماحول مجھے برا لگنے لگا اور میں نے نوکری چھوڑ دی اور جولائی 1946ء میں بمبئی سے حکیم مرزا حیدر بیگ دہلوی کا خط ملا جس میں لکھا تھا کہ ایک پروڈیوسر سے میں نے بات کی ہے وہ تم کو اپنی کمپنی میں گیت کار کی حیثیت سے رکھنا چاہتے ہیں۔حکیم صاحب نے یہ بھی لکھا تم آ جاؤ اور تمھاری ان سے ملاقات کرا دوں اگر نوکری پسند نہ آئی تو کرایہ خرچہ میں ادا کر دوں گا۔ انہوں نے مجھے پروڈیوسر اے ار کاردار سے ملوایا۔انہوں نے کہا کہ میں اپنی فلم "شہجہان" کے بعد "درد" فلم بنانے لگا ہوں اس سے اپنے گیتوں کی ابتدا کرو۔میں نے کہا مجھے منظور ہے مگر شرط یہ ہے کہ مجھے مکان بھی دیا جاے انہوں نے یہ شرط منظور کر لی۔جس زمانے میں میں فلم "درد کے لۓ نغمے لکھ رہا تھا اسی زمانے میں میرے وطن بدایوں سے والدہ صاحبہ کی شدید علالت کی اطلاع ملی میں رخصت لے کر بدایوں آ گیا اور میرے سامنے ہی والدہ صاحبہ وفات پا گئیں۔میں اپنی بیوی کو کچھ ہدایتیں دے کر واپس بمبئی آ گیا۔یہ وہ وقت تھا جب ہندوستان اور پاکستان بنانے کے لۓ گاندھی جی اور محمد علی جناح جی انگریز وائسراے لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے ملاقاتیں کر رہے تھے۔او پھر 14،15 اگست 1947ء پاکستان اور ہندوستان بن گۓ۔
اب ملک میں ہندو مسلم فساد کی آگ ٹھنڈی پڑ گئی۔کاردار صاحب اور محبوب قدوائی واپس آ گۓ اور محبوب نے اپنا کام شروع کر دیا۔ انوکھی ادا فلم۔"کاجل" اور پی این اردورہ کے لۓ( اور اس کے علاوہ بے شمارفلموں کے لۓ) بہت سے گیت لکھے۔
میں نے ٹائمز آف انڈیا کے مشہور رسالے فلم فئیر کی جانب سے مسلسل تین سال ایوارڈ حاصل کۓ۔1960ء میں"چودھیوں کا چاند " فلم کے گیت پر پہلا ایوارڈ ملا گیت کا مکھڑا تھا
"چودہویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو"
1960،61،62،63،66،67۔ کے بہترین فلمی شاعروں کو دیۓ جانے والے ایوارڈ حاصل کۓ۔
اگست 1946ء سے اگست 1969ء تک میں نے تقریباۤ 100 فلموں میں گیت لکھے۔
چند مشہور فلمیں جن کے گانے بہت مقبول ہوۓ یہ ہیں۔
درد،دل لگی،دلاری،داستان،انوکھی ادا،آن،امر،مدر انڈیا،سن آف انڈٰیا،میلہ،بابل۔اڑن کھٹولہ،کوہ نور، پالکی، شباب، دیدار، بیجو باورا، مغل اعظم، گنگا جمنا،میرے محبوب،آدمی،رام اور شیام،سنگھرش،لیڈر،دل دیا درد لیا،درد کی آواز،کون اپنا کون پرایا،دو بدن،بیس سال بعد،صاحب بی بی غلام،بن بادل برسات،نورجہاں،بازی،پھول اور پتھر،بے نظیر،پاکدامن وغیرہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے مجموعے
رعنائیاں،صنم و جرم،نعتیہ کلام کا مجموعہ۔
نغمہ فردوس، رنگینیاں، شبستان، کلیات شکیل
نثر میں ڈاکٹر شکیل الرحمٰن کی لکھی ہوئی کتاب شکیل بدایونوی کی رومانوی شاعری۔
اور نغمہ فردوس ان کے علاوہ شکیل بدیوانوی اور ان کی شاعری۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک سو سے بھی زائد فلموں میں گیت نگاری کرنے والے اس البیلے شاعر کا انتقال 20 اپریل 1970 کو بمبئی میں ہوا۔
اگرچہ آج وہ ہم میں نہیں تاہم ان کے گانوں کو سن کر لوگ اب بھی جھومنے لگتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منتخب کلام:
اِک عشق ہی کیا شعلہ فشاں میری غزل میں
پنہاں ہیں رموزِ دو جہاں میری غزل میں
تعمیر کے پہلوُ ہیں نہاں میری غزل میں
مِلتا نہیں رجعت کا نِشاں میری غزل میں
دیکھے تو کوئی دیدۂ ادراک و یقین سے
ہر منظرِ فطرت ہے جواں میری غزل میں
اُردو کو جس اندازِ بیاں کی ہے ضرورت
مِلتا ہے وہ اندازِ بیاں میری غزل میں
بچ بچ کے نِگاہ و دلِ اربابِ ہوس سے
پائی ہے محبّت نے اماں، میری غزل میں
محدُود نہیں دائرۂ رنگِ تغزّل !
ہر شعبۂ ہستی ہے نہاں میری غزل میں
ہر شعر ہے مجموعۂ احساس و صداقت
ہر لفظ ہے نشتر کی زباں میری غزل میں
منظوم ہے میرے ہی خیالات کی تاریخ
کیا ذکر حدیثِ دِگراں میری غزل میں
محبُوب کی خلوت پہ نظر میرے سُخن کی
مظلوُم کی آہوں کا دُھواں میری غزل میں
مسجد کے مراحل، کہیں میخانے کی باتیں
افسانۂ ہر پیر و جواں میری غزل میں
کچُھ سِلسلۂ چنگ و دف و بربط و مضراب !
کچُھ تذکرۂ تیغ و سِناں میری غزل میں
بھڑکے گی یُوں ہی آتشِ ماحول کہاں تک
جذبات کے دریا ہے رواں میری غزل میں
ہے ظلم شکیل اہلِ سیاست کا یہ ورنہ
گنجائشِ تنقیص کہاں میری غزل میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برائے نام جہاں دورِ بے سرور چلیں
شکیل کیوں نہ ہم اُس میکدے سے دور چلیں
نہ سمتِ وادئ ایمن، نہ سوئے طُور چلیں
نگاہ دل پر جمائیں، ترے حُضور چلیں
اس انجمن میں ریاکاریاں ہیں شاملِ عجز
چلو یہاں سے بصد نخوت و غرور چلیں
نسیمِ صبح میں نکہت نہ پھول میں خوشبو
یہی چمن ہے تو ایسے چمن سے دور چلیں
ہمارے سائے پہ بھی رشک تھا شکیلؔ جنہیں
خدا کی شان! وہ اب ہم سے دُور دُور چلیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غمِ عاشقی سے کہہ دو رہِ عام تک نہ پہنچے
مجھے خوف ہے یہ تہمت مرے نام تک نہ پہنچے
میں نظر سے پی رہا تھا تو یہ دل نے بد دعا دی!
تیرا ہاتھ زندگی بھر کبھی جام تک نہ پہنچے
وہ نوائے مضمحل کیا نہ ہو جس میں دل کی دھڑکن
وہ صدائے اہلِ دل کیا جو عوام تک نہ پہنچے
مرے طائرِ نفس کو نہیں باغباں سے رنجش
مِلے گھر میں آب و دانہ تو یہ دام تک نہ پہنچے
نئی صبح پر نظر ہے، مگر آہ یہ بھی ڈر ہے
یہ سحر بھی رفتہ رفتہ کہیں شام تک نہ پہنچے
یہ ادائے بے نیازی تجھے بے وفا مبارک
مگر ایسی بے رُخی کیا کہ سلام تک نہ پہنچے
جو نقابِ رُخ اُٹھا دی تو یہ قید بھی لگا دی
اُٹھے ہر نگاہ لیکن کوئی بام تک نہ پہنچے
انہیں اپنے دل کی خبریں، مرے دل سے مل رہی ہیں
میں جو اُن سے رُوٹھ جاؤں تو پیام تک نہ پہنچے
وہی اک خموش نغمہ ہے شکیلؔ جانِ ہستی
جو زبان پر نہ آئے، جو کلام تک نہ پہنچے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راہِ خدا میں عالمِ رندانہ مل گیا
مسجد کو ڈھونڈتے تھے کہ میخانہ مل گیا
آغازِ کائنات سے جس کی تلاش تھی
اوراقِ زندگی میں وہ افسانہ مل گیا
اہلِ جنوں کو تاب کہاں سوزِ حُسن کی
جلتے ہی شمع خاک میں پروانہ مل گیا
دیکھا نگاہِ یاس سے جب گل کدے کا رنگ
ہر گُل کی آڑ میں کوئی ویرانہ مل گیا
اِک اِک زباں پہ میری رُوداد ہے شکیلؔ
اپنوں کے ساتھ کیا کوئی بیگانہ مل گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بن جائے قہر عشرتِ پیہم کبھی کبھی
دل کو سکوں نہ دے جو ترا غم کبھی کبھی
لمحاتِ یادِ دوست کو صَرفِ دعا نہ کر
آتے ہیں زندگی میں یہ عالم کبھی کبھی
زاہد کی مہ کشی پہ تعجب نہ کیجیے
لاتی ہے رنگ فطرتِ آدم کبھی کبھی
مرکز سے ہو کے دُور بہ ایں اختصارِ عمر
روتی ہے اپنے حال پہ شبنم کبھی کبھی
کیف و نشاطِ درد کا عالم نہ پوچھیے
ہنس کر گزار دی ہے شبِ غم کبھی کبھی
اُن کی خوشی کو اپنی خوشی جان کر شکیل
سر کر لیا ہے معرکہ ء غم کبھی کبھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری بربادی کو چشمِ معتبر سے دیکھیے
میرؔ کا دیوان، غالبؔ کی نظر سے دیکھیے
مُسکرا کر یُوں نہ اپنی رہ گزر سے دیکھیے
جس طرف میں ہوں، مری منزل اُدھر سے دیکھیے
ہیں دلیلِ کم نگاہی اختلافاتِ نظر
زندگی کا ایک ہی رُخ ہے جدھر سے دیکھیے
بھرتے رہتے ہیں جہنم زندگی کے چارہ ساز
دُشمنِ جاں ہیں اگر گہری نظر سے دیکھیے
میرے غم خانے کے چاروں سمت ہیں دولت کدے
زندگی کی بھیک مِلتی ہے کِدھر سے دیکھیے
فطرتاً ہر آدمی ہے طالبِ امن و اماں
دشمنوں کو بھی محبت کی نظر سے دیکھیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رہِ وفا میں کوئی صاحبِ جنوں نہ ملا
دلوں میں عزم تو پائے رگوں میں خوں نہ ملا
ہزار ہم سے مقدر نے کی دغا لیکن
ہمیں مٹا کے مقّدر کو بھی سکوں نہ ملا
گلوں کے رُخ پہ وہی تازگی کا عالم ہے
نہ جانے ان کو غمِ روزگار کیوں نہ ملا
کہاں سے لائے وہ اک بوالہوس مذاقِ سلیم
جسے نظر تو ملی، جذبہء دروں نہ ملا
مِلی تھیں ترکِ محبت کے بعد بھی آنکھیں
مگر وہ کیف، وہ اعجاز، وہ فسوں نہ ملا
فلک شگاف تھا اس درجہ اضطرابِ عمل
کہ بندگی میں فرشتوں کو بھی سکوں نہ ملا
نہ جانے کس کے سہارے رُکا ہوا ہے فلک
ہمیں تو فرشِ زمیں پر کوئی ستوں نہ ملا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مری زندگی پہ نہ مسکرا، مجھے زندگی کا الم نہیں
جسے تیرے غم سے ہو واسطہ وہ خزاں بہار سے کم نہیں
مرا کُفر حاصلِ زُہد ہے، مرا زُہد حاصلِ کُفر ہے
مری بندگی ہے وہ بندگی جو رہینِ دیر و حرم نہیں
مجھے راس آئیں خدا کرے یہی اشتباہ کی ساعتیں
اُنہیں اعتبارِ وفا تو ہے مجھے اعتبارِ ستم نہیں
وہی کارواں، وہی راستے، وہی زندگی، وہی مرحلے
مگر اپنے اپنے مقام پر کبھی تم نہیں، کبھی ہم نہیں
نہ وہ شانِ جبرِ شباب ہے، نہ وہ رنگ قہرِ عذاب ہے
دلِ بے قرار پہ ان دنوں، ہے ستم یہی کہ ستم نہیں
نہ فنا مری، نہ بقا مری، مجھے اے شکیلؔ نہ ڈھونڈیئے
میں کسی کا حسنِ خیال ہوں، مرا کچھ وجود و عدم نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر گوشہء نظر میں سمائے ہوئے ہو تم
جیسے کہ میرے سامنے آئے ہوئے ہو تم
میری نگاہِ شوق پہ چھائے ہوئے ہو تم
جلووں کو خود حجاب بنائے ہوئے ہو تم
کیوں اک طرف نگاہ جمائے ہوئے ہو تم
کیا راز ہے جو مجھ سے چھپائے ہوئے ہو تم
دل نے تمہارے حسن کو بخشی ہیں رفعتیں
دل کو مگر نظر سے گرائے ہوئے ہو تم
یہ جو نیاز عشق کا احساس ہے تمہیں
شاید کسی کے ناز اٹھائے ہوئے ہو تم
یا مہربانیوں ہی کے قابل نہیں ہوں میں
یا واقعی کسی کے سکھائے ہوئے ہو تم
اب امتیاز پردہ و جلوہ نہیں مجھے
چہرے سے کیوں نقاب اٹھائے ہوئے ہو تم
اُف رے ستم شکیل یہ حالت تو ہو گئ
اب بھی کرم کی آس لگائے ہوئے ہو تم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دھندلی دھندلی فضا نہ صبح نہ شام
ہائے کم بخت زندگی کا نظام
دیدہ و دل ہیں خوگرِ آلام
تیرے قربان ساقیا اک جام
حسن کی چشمِ اولیں کی قسم
عشق نے پا لیا خود اپنا مقام
قفسِ مرگِ بے اماں کی قسم
زندگی ہے فریبِ دانہ و دام
آپ نے کس نظر سے دیکھا تھا
دل ابھی تک ہے موردِ الزام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرے ہم نفس، مرے ہم نوا، مجھے دوست بن کے دغا نہ دے
میں ہوں دردِ عشق سے جاں بلب مجھے زندگی کی دُعا نہ دے
میں غمِ جہاں سے نڈھال ہوں کہ سراپا حزن و ملال ہوں
جو لکھے ہیں میرے نصیب میں وہ الم کسی کو خُدا نہ دے
نہ یہ زندگی مری زندگی، نہ یہ داستاں مری داستاں
میں خیال و وہم سے دور ہوں، مجھے آج کوئی صدا نہ دے
مرے گھر سے دور ہیں راحتیں، مجھے ڈھونڈتی ہیں مصیبتیں
مجھ خوف یہ کہ مرا پتہ کوئی گردشوں کو بتا نہ دے
مجھے چھوڑ دے مرے حال پر، ترا کیا بھروسہ اے چارہ گر
یہ تری نوازشِ مختصر ، مرا درد اور بڑھا نہ دے
مرا عزم اتنا بلند ہے کہ پرائے شعلوں کا ڈر نہیں
مجھے خوف آتشِ گُل سے ہے کہیں یہ چمن کو جلا نہ دے
درِ یار پہ بڑی دھوم ہے ، وہی عاشقوں کا ہجوم ہے
ابھی نیند آئی ہے حُسن کو کوئی شور کر کے جگا نہ دے
مرے داغِ دل سے ہے روشنی یہی روشنی مری زندگی
مجھے ڈر ہے اے مرے چارہ گر یہ چراغ تُو ہی بُجھا نہ دے
وہ اُٹھے ہیں لے کے خم و سبو، ارے اے شکیل کہاں ہے تُو
ترا جام لینے کو بزم میں ، کوئی اور ہاتھ بڑھا نہ دے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہو تو کمالِ ربطِ محبّت کسی کے ساتھ
دل چیز کیا ہے جان بھی دے دوں خوشی کے ساتھ
ہمدردیاں ہیں عمر کو تنہا روی کے ساتھ
طے کر رہا ہوں راہِ وفا زندگی کے ساتھ
ہے ہر قدم پہ فتنہ در آغوشِ کائنات
ممکن نہیں گزر یہاں آشتی کے ساتھ
حاصل ہے اختیار جسے مرگ و زیست پر
جی چاہتا ہے عمر گزاروں اُسی کے ساتھ
حا صل ہے اَوجِ سجدہ حریمِ جمال پر
فطرت میں کچھ غرور بھی ہے عاجزی کے ساتھ
دراصل آدمی نہ سمجھنا اُسے شکیل
جو آدمی وفا نہ کرے آدمی کے ساتھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ خالد محمود