آج – 23 ؍جولائی 1978
مذہبی عالم، دانشور، ماہرِ لسّانیات، روحانی شخصیت اور معروف بزرگ صوفی شاعر” بابا ذہین شاہ تاجیؔ صاحب “ کا یومِ وفات…
ذہین شاہ تاجی کا تعلق صوفیوں کے سلسلہ چشتیہ سے ھے۔ ان کا سلسلئہ نسب دوسرے خلیفہ حضرت عمر فاروقؓ سے ملتا تھا۔ ان کا اصل نام محمد طوسین اور " تاجیؔ " تخلص تھا۔ 1904 میں ہندوستان کے صوبے راجستھان کے تاریخی گلابی شہر جے پور میں پیدا ھوئے۔ ان کے والد صاحب کا نام پیرزادہ خواجہ دیدار بخش فاروقی تھا۔ جو خود صوفی منش انسان تھے۔ بابا تاجی اردو کے علاوہ انگریزی، فارسی، عربی ، سنسکرت اور ہندی میں تحریروں ، اور گفتار میں روان تھے۔ اور ان زبانوں میں ان کا قلمی اور تکلمی اظہار بہت رواں اور شستہ تھا۔
23 جولائی 1978 میں کراچی میں انتقال ھوا۔ آستانہ تاجیہ ، میوہ شاہ میں رزق خاک ہوئے۔ ذہین شاہ تاجی مرحوم مذھبی عالم، دانشور، غزل کے شاعر ھونے کے علاوہ انھیں اردو ، فارسی ،ہندی، عربی اور انگریزی پر بھی دسترس تھی۔ ان کے مرشد حضرت یوسف شاہ تاجی تھے۔ ذہین شاہ تاجی، تاج الدین بابا ناگوری کے معتقد بھی تھے۔ انھون نے ابن عربی کی کتاب ۔۔ "فصوص الحکم" ۔۔ اور منصور بن حلاج کی مشہور تصنیف، " الطوسین "۔۔ کا اردو ترجمہ کیا۔ جس مین خدا اور ابلیس (شیطان) کا مکالمہ بھی شامل ھے۔ ان کی سب سے اھم کتاب بابا تاج الدین ناگوری کی سوانح عمری جو اردو اور فارسی میں لکھی گئی تھی۔ ان کی دو شعری تصانیف۔
" لمحاتِ جمال " (حمد و نعت ) ، " جمالِ آیت" ( فارسی غزل و نظم ) ٠
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
※☆▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔☆※
صوفی شاعر بابا ذہین شاہ تاجیؔ کے یومِ وفات پر چند نعتیہ کلام و منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…
دو جہاں میں ہے ضیائے شمع دین مصطفےٰﷺ
ہیں زمین و آسمان زیر نگین مصطفےٰﷺ
ہے رخ شمس و قمر پر تو گزینِ مصطفیﷺ
اللہ اللہ !جلوہِ نور جبینِ مصطفیﷺ
پستیوں میں بھی نمایاں رفعتوں کی شان ہے
وقت سجدہ عرش تھا زیر جبن مصطفیﷺ
—
جی چاہے تو شیشہ بن جا، جی چاہے پیمانہ بن جا
شیشہ پیمانہ کیا بننا، مے بن جا، مےخانہ بن جا
مے بن کر، مےخانہ بن کر، مستی کا افسانہ بن جا
مستی کا افسانہ بن کر، ہستی سے بیگانہ بن جا
—
کہیں عنوان بدلا ہے کہیں طرز بیاں بدلا
ازل سے تا ابد افسانۂ ہستی کہاں بدلا
—
ایک حقیقت کے دو محمل حسن و محبت دونوں ہیں
خلوت خلوت محفل محفل حسن و محبت دونوں ہیں
—
محبت میں زبوں حالی کی وہ تزئین فرمائیں
وہ غم دیں ضبط غم کی داد دیں تحسین فرمائیں
—
نظر لوٹ کر دل میں آئے تو کیا ہو
جو دیکھا ہے دل میں دکھائے تو کیا ہو
—
میں ہوش میں ہوں تو تیرا ہوں ، دیوانہ ہوں تو تیرا ہوں
ہوں رازِ ازل تو تیرا ہوں ، افسانہ ہوں تو تیرا ہوں
—
یہ شرک ہے تصّورِ حسن و جمال میں
ہم کیوں ہیں تم اگر ہو ہمارے خیال میں
جب سے مرا خیال تری جلوہ گاہ ہے
آتا نہیں ہوں آپ بھی اپنے خیال میں
اٹھا ترا حجاب نہ میرے اٹھے بغیر
میں آپ کھوگیا ترے ذوقِ وصال میں
—
نہ الفاظ پہنچیں نہ معنیٰ وہاں تک
کہوں حسن کی حد کہاں سے کہاں تک
—
مولیٰ مولیٰ لاکھ پکارے مولیٰ ہاتھ نہ آئے
لفظوں سے ہم کھیل رہے ہیں معنٰی ہاتھ نہ آئے
—
لاَ موجود غَیر الحق
غیرِ حق زق زق بق بق
چشمِ حق ہے سوئے حق
دیکھ ! مقیّد میں مطلق
—
سانس میں آواز نے ہے دل غزل خواں ہے ذہینؔ
شاید آنے کو ہے وہ جان بہاراں اس طرف
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
بابا ذہین شاہ تاجیؔ
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ