آج – 7؍جولائی 1926
ہندوستان کی مشترکہ گنگا جمنی تہذیب کے علمبرداروں میں شمار اردو دنیا کے اہم نامور مشہور و معروف بزرگ شاعر” گلزارؔ دہلوی صاحب“ کا یومِ پیدائش…
نام پنڈت آنند موہن زتشی اور تخلص گلزارؔ، 7؍جولائی 1926ء گلی کشمیریاں دہلی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔
ہندو کالج یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کی اور دہلی ہی میں سکونت اختیار کی –
ہندوستان کی پہلی اردو میگزین "سائنس کی دنیا" کے ایڈیٹر رہے
بر صغیر کے علاوہ اردو دنیا کی نئی بستیوں کے حوالے سے بھی بیشتر ممالک کے مشاعروں میں شریک ہوئے ہمارے یہاں مملکت بحرین کے مشاعرے میں بھی شرکت کا شرف عطا کیا
گلزار دہلوی کا مجموعہ کلام گلزارِ غزل 2000ء اور کلیاتِ گلزار دہلوی 2010 میں منظرِ عام پر آئے۔
گلزار دہلوی کو بہت سے ادبی ایوارڈ سے نوازا گیا جن میں کچھ ایوارڈ کی تفصیل اس طرح ہے۔ میر تقی میرؔ ایوارڈ 2009, ڈاکٹر عبدالکلام ایوارڈ 2015 , لائف اچییومنٹ ایوارڈ ہندو کالج 2018,,
جون 2020ء میں عالمی وبا کرونا COVID – 19 کا شکار ہوئے اور 12؍جون 2020ء کی دوپہر 94 سال کی عمر میں نوئیڈا، دہلی میں انتقال کر گئے ۔
✨ پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
ہندوستان کی مشترکہ گنگا جمنی اردو تہذیب کے علمبردار مشہور و معروف شاعر گلزارؔ دہلوی کے یوم پیدائش پر منتخب کلام بطور خراجِ عقیدت…
فلاحِ آدمیت میں صعوبت سہہ کے مر جانا
یہی ہے کام کر جانا یہی ہے نام کر جانا
جہاں انسانیت وحشت کے ہاتھوں ذبح ہوتی ہو
جہاں تذلیل ہے جینا وہاں بہتر ہے مر جانا
یوں ہی دیر و حرم کی ٹھوکریں کھاتے پھرے برسوں
تری ٹھوکر سے لکھا تھا مقدر کا سنور جانا
سکونِ روح ملتا ہے زمانے کو ترے در سے
بہشت و خلد کے مانند ہم نے تیرا در جانا
ہماری سادہ لوحی تھی خدا بخشے کہ خوش فہمی
کہ ہر انسان کی صورت کو ما فوق البشر جانا
یہ ہے رندوں پہ رحمت روزِ محشر خود مشیت نے
لکھا ہے آبِ کوثر سے نکھر جانا سنور جانا
چمن میں اس قدر سہمے ہوئے ہیں آشیاں والے
کہ جگنو کی چمک کو سازشِ برق و شرر جانا
ہمیں خارِ وطن گلزارؔ پیارے ہیں گلِ تر سے
کہ ہر ذرے کو خاک ہند کے شمس و قمر جانا
═══════════════════
زندگی راہِ وفا میں جو مٹا دیتے ہیں
نقش الفت کا وہ دنیا میں جما دیتے ہیں
اس طرح جرمِ محبت کی سزا دیتے ہیں
وہ جسے اپنا سمجھتے ہیں مٹا دیتے ہیں
ایک جل روز ہمیں آپ نیا دیتے ہیں
وعدہِ وصل کو باتوں میں اڑا دیتے ہیں
خم و مینا و سبو بزم میں آتے آتے
اپنی آنکھوں سے کئی جام پلا دیتے ہیں
حسن کا کوئی جدا تو نہیں ہوتا انداز
عشق والے انہیں انداز سکھا دیتے ہیں
کوسنے دیتے ہیں جس وقت بتانِ طناز
ہاتھ اٹھائے ہوئے ہم ان کو دعا دیتے ہیں
میرے خوابوں میں بھی آتے ہیں عدو کے ہم راہ
یہ وفاؤں کا مری آپ صلہ دیتے ہیں
حالتِ غیر پہ یوں خیر سے ہنسنے والے
اس توجہ کی بھی ہم تم کو دعا دیتے ہیں
شہر میں روز اڑا کر مرے مرنے کی خبر
جشن وہ روز رقیبوں کا منا دیتے ہیں
دیر و کعبہ ہو کلیسا ہو کہ مے خانہ ہو
سب ہر اک در پہ تجھی کو تو صدا دیتے ہیں
عشوہ و حسن و ادا پر تری مرنے والے
کتنے معصوم یوں ہی عمر گنوا دیتے ہیں
پئے گل گشت وہ گل پوش جو آئے گلزارؔ
زندگی سبزے کے مانند بچھا دیتے ہیں
══━━━━✥••••◈••••✥━━━━══
ان کی نظر کا لطف نمایاں نہیں رہا
ہم پر وہ التفات نگاراں نہیں رہا
دل بستگی و عیش کا ساماں نہیں رہا
خوش باشیٔ حیات کا ساماں نہیں رہا
یہ بھی نہیں کہ گل میں لطافت نہیں رہی
پر جنت نگاہ گلستاں نہیں رہا
ہر بے ہنر سے گرم ہے بازار سفلگی
اہل ہنر کے واسطے میداں نہیں رہا
اپنی زبان اپنا تمدّن بدل گیا
لطف کلام اب وہ سخنداں نہیں رہا
کیوں اب طواف کوئے ملامت سے ہے گریز
کیا وہ جنون کوچۂ جاناں نہیں رہا
سیکھا ہے حادثات زمانہ سے کھیلنا
ہم کو ہراس موجۂ طوفاں نہیں رہا
ہر بیت جس کے فیض سے بیت الغزل بنے
اب وہ سرور چشم غزالاں نہیں رہا
دیوانگئ شوق کے قربان جائیے
اب امتیاز جیب و گریباں نہیں رہا
پیر مغاں کی بیعت کامل کے فیض سے
اب شیخ نام کا بھی مسلماں نہیں رہا
ان کی نگاہِ ناز کا یہ التفات ہے
چارہ گروں کا زیست پر احساں نہیں رہا
کیا حال ہے تمہارا عزیزان لکھنؤ
تہذیبِ اہل دلی کا پرساں نہیں رہا
ہر شے ہے اس جہان میں لیکن خدا گواہ
گلزارؔ اس دیار میں انساں نہیں رہا
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
گلزارؔ دہلوی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ