آج – 27؍اپریل 2017
اردو میں ما بعد جدید نظریہ کے حامل شاعروں میں اپنی منفرد شناخت، نگارشات اور نو تراشیدہ لفظی ترکیبات کے سبب معروف اور ممتاز شاعر” مقیم اثر بیاولی صاحب “ کا یومِ وفات…
اصلیت چہرہ بدلنے سے کہیں چھپتی ہے
خود کو میں خود سے چھپاؤں یہ ضروری تو نہیں
—
اردو میں ما بعد جدید نظریہ کے حامل شاعروں میں اپنی منفرد خصوصیات، اچھوتی اور نرالی نگارشات اور نو تراشیدہ لفظی ترکیبات کے سبب مقیم اثرؔ بیاولی ثم مالیگانوی کا نام ممتاز اور نمایاں مقام و منصب پر فائز ہے۔ آپ ادارہ رسیدہ روایتی ترقی پسندی، فیشن زدہ روایتی جدیدیت پسندی، کوتا ہ رسیدہ اشتراکیت پسندی کے فرقہ وارانہ تعصبات کے خول سے ماورا ہمہ جہت و ہمہ گیر بلکہ عالمگیر و آفاقی روحانیت پسند، اخلاقیت پسنداور فطری انسانی بصیرت و بصارت کے حامل سکندرانہ اداؤں اور قلندرانہ جلال کے امیٖن ایک اچھے اور سچے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ بلند پایہ انشاپرداز اور مایۂ ناز نثر نگار بھی ہیں۔
بقولِ نظام صدیقی :
’’ پچاسوں دیوانوں کا دیوانہ شاعر … مقیم اثرؔ کا ما بعد جدید تخلیقی شعری کردار اکیسویں صدی کو محیط وہ برق رَو معانی آفریں، جہت نما، روشن سفر ہے، جو بھٹکی ہوئی غزل اور نظم کا قبلہ درست کر دے گا۔ ‘‘
مقیم اثرؔ کی شاعری کے موضوعات متنوع اور گوناگوں، ہمہ گیر و ہمہ جہت ہیں۔ آپکی شعر کائنات کے موضوعات کا دائرہ آدمی، زندگی، زمانہ، کائنات، خالقِ کائنات، فطرت کے گہرے حقائق، جبر و اختیار، مقامِ آدمیت، منصبِ رسالت، عقیدے سے گہری وابستگی، قضا و قدر، جذباتی بے رشتگی سے پیدا شدہ تنہائی، سماجی بے گانگی، لایعنیت، احساسِ زیاں، احساسِ نا تکمیلیت، لا حاصلی، یاسیت، لا حاصلی، درد و غم، شعلہ فگنی، احتجاج، انحراف، جلال، جمال، عاشقی، رندی، سرمستی، آلامِ روزگار، دعائے بزرگاں، جفائے دوستاں، آزارِ دشمناں، اعترافِ حقیقت، پابندیِ وقت، غمِ ذات، غمِ کائنات، اقدار کی پامالی، مادیت کے فروغ سے بڑھتے جرائم وغیرہ کو اپنی وسعتوں میں محیط کرتا ہے۔
مقیم اثرؔ بیاولی، ٢٧ اپریل ٢٠١٧ء کو انتقال کر گئے۔
✒ : ڈاکٹر محمّدحسین مشاہد رضوی
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
※※―¤―★★«»★«»«»★★―¤―※※
آنسووں کا شہر : مالیگاؤں
شہر عزیز مالیگاؤں کے بزرگ و معتبر شاعر جناب مقیم اثرؔ بیاولی کے یومِ وفات ان کی مشہور نظم بطورِ اظہارِ عقیدت…
شہر تو اور بھی ہیں مثالی کئی
شان سب سے نرالی مرے شہر کی
تان سب سے انوکھی مرے شہر کی
اہل دیں خدمتِ دیں میں ڈوبے ہوئے
اہل دانش مسائل میں الجھے ہوئے
قائدینِ سیاست ، سیاست میں گم
اہل فن رہتے ہیں فن کی عظمت میں گم
اس کی آغوش گہوارۂ علم و فن
اس کی محنت میں ہے زیست کا بانکپن
اس کی بانہیں محبت کی پیغام بر
کوئی آئے کھلی ہیں سبھی کے لیے
سب کو سامانِ روزی مہیا کرریں
بابِ رحمت ہے محنت کشوں کے لیے
ساڑیوں میں ہیں گل زار کشمیر کے
دھوتیوں میں ہے دیہات کی سادگی
رقص کرتی ہے راہوں میں دوشیزگی
شاعروں اور ادیبوں کی کثرت سے ہے
شہر البیلی تانوں میں ڈوبا ہوا
شور ہی شور ہے گویا چاروں طرف
لیکن اس شور میں اے مرے دوستو
دھڑکنیں بھی ہیں شامل اسی شہر کی
جو ابھی تک سماعت سے محروم ہیں
مختلف رنگ اور روپ کا شہر ہے
چھاوں کاشہر ہے دھوپ کا شہر ہے
دوہی تاروں پہ موقوف ہے زندگی
ایک تارِ نفَس ، دوسرا سوت کا
ان میں سےایک بھی ٹوٹ جائے اگر
زندگی سب کی ہوجائے نامعتبر
اِس کی صبحوں کو ہے آفتابوں کا غم
اس کی شامیں نہیں ہیں ابھی محترم
راتیں بے نور ہیں مثلِ طاقِ حرم
گویا ہونٹوں پہ ہے وقت کا مرثیہ
اس کی صبحوں میں رنگِ بنارس نہیں
اس کی شامیں اودھ کا سنگھاسن نہیں
پھر بھی مستی میں ڈوبا ہوا شہر ہے
سلسلہ محنتوں کا ازل تا ابد
دستِ کاوش میں ہے کپڑا بُننے کافن
چار جانب مشینوں کااک شور ہے
زندگی باوجود اس کے کمزور ہے
صبح تا شام کرگھوں میں ڈوبا ہوا
بھوک اور پیاس ہے محنتوں کا صلا
ٹیکس کا بوجھ سر پر اٹھائے ہوئے
لر رہا ہے تمدن کے بحران سے
یہ نوازش ، کرم ، مہربانی ، عطا
میری اپنی حکومت ہی کی دین ہے
کوئی مونس نہیں کوئی پُرساں نہیں
آنسووں کی تمازت میں ڈوبا ہوا
یہ مرا شہر ہے ، یہ مرا شہر ہے
میں اسی شہر کا ایک فن کار ہوں
شان سب سے نرالی مرےشہر کی
تان سب سے انوکھی مرے شہر کی
منتظر ہوں میں اس صبحِ امید کا
جو مرے درد و غم کا مداوا کرے
جو غریبوں کو آسودگی بخش دے
میری تہذیب کو ،میرے احساس کو
میر ےجذبات کو میرے حالات کو
اک نئی روشنی ، اک نئی تازگی
اک نئی آرزو ، اک نئی جستجو
بے تکان اک سفر اک نئی سمت دے
منتظر ہوں میں جس صبحِ امید کا
اے خدا! موت اور زندگی کے خدا !!
زندگی کے افق سے وہ سورج اُگا !!
═══════════════════
مقیم اثرؔ بیاولی
المرسل : اعجاز زیڈ ایچ