آج – 24؍جون 1981
مقبول ڈرامہ نگار, ادیب اور انقلابی شاعر” الطافؔ مشہدی صاحب “ کا یومِ وفات…
الطافؔ مشہدی کی پیدائش ١٠؍فروری ١٩١٤ء کو آلو مہار مشرقی سرگودھا میں ہوئی تھی۔ ان کا اصل نام سید الطاف حسین تھا اور ان کے والد کا نام سید علی حسین شاہ تھا۔ انہوں نے منشی فاضل پرائیوٹ طور پر پاس کیا تھا۔ زمینداری اور صحافت دونوں ذریعہ معاش تھے۔ الطاف مشہدی کی رومانیت میں ستارے، پھول، چاندنی راتیں، بیمار کلیاں، پر خواب فضائیں اور سحر کار ماحول نے بڑی خوبی سے جادو جگایا ہے اور اس فضا میں اس کا رومانی کردار ریحانہ، شمیم و عنبر بکھیرتا رہا ہے۔ مجموعی طور پر وہ رومانی تحریک کی ایک ایسی آواز تھے جس میں اختر شیرانی کی آواز بھی شامل ہے۔
الطافؔ کے کلام میں سوز و درد تھا، جوش اور بلبلہ بھی لیکن ان جزبات کی وسعت محبت ہی تک محدود نہیں تھی ۔ سوز و گداز الطاف کے کلام کا خاص جوہر تھا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ غم نصیب شاعر نشات و کیف سے کبھی دو چار نہیں ہوا، وصل کی خوشی کبھی اس کے حصہ میں نہیں آئ۔ان کے سرفروش جزبات میں وطنیت اور مزدور کی محبت تھی۔ جس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ الطاف ادب میں سامراج پسندوں کی مخالف سمت میں کھڑے ہوتے تھے۔ ایک جگہ پر علّمہ تاجور نجیب آبادی لکھتے ہیں کہ “اقبال کے بعد زمانے نے ایک اور کروٹ بدلی اور شعرا کے نوجوان طبقہ میں جوش اور الطاف جیسے فیض شناس شاعر پیدا ہوئے۔”
جب ملک بھر میں آزادی کی نظمیں تہریر کی جا رہی تھیں تب الطاف مشہدی نے بھی اپنی نظم “جھوم کر اُٹھو وطن آزاد کرنے کے لئے” اس وقت لکھی جو کافی مشہور و مقبول ہوئ تھی اور اسی کے سبب انہیں شہرت بھی حاصل ہوئ۔ کئی رسائل اور اخبارات ان کی ادارت میں مختلف مقامات سے شائع ہوتے رہے ہیں۔ ان کی تصانیف میں ’’داغ بیل‘‘، ’’ڈگر‘‘، ’’الطاف کے گیت‘‘، ’’الطاف کے نغمے‘‘، ’’تصویر احساس‘‘، ’’پربت کے گیت‘‘، ’’لذت رنگ و بو‘‘، ’’شاخ گل‘‘ شامل ہیں۔ ٢٤جون ١٩٨١ء کو سرگودھا، پاکستان میں انتقال فرما گئے۔
🌹✨ پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤
💐🔲 انقلابی شاعر الطافؔ مشہدی کے یوم وفات پر منتخب کلام بطور خراجِ عقیدت… 🔲💐
نگاہِ مست میں کیا رنگ والہانہ تھا
سرور و کیف میں ڈوبا ہوا زمانہ تھا
کسی کی اٹھتی جوانی کا جب زمانہ تھا
مری نگاہ کا ہر فعل شاعرانہ تھا
ستم نصیب کی اللہ رے سوختہ بختی
ہے بجلیوں کا نشیمن جو آشیانہ تھا
ازل سے قید عناصر عطا ہوئی مجھ کو
مرے نصیب میں زنداں کا آب و دانہ تھا
وفور درد سے جب ہچکیاں سی آنے لگیں
ہر ایک زخم کے لب پر مرا فسانہ تھا
شروع عشق میں کیا میری شاعری تھی نہ پوچھ
فلک پہ مرغ تخیل کا آشیانہ تھا
وطن میں حضرتِ الطافؔ زندگی اپنی
بہارِ خلد محبت کا اک فسانہ تھا
══━━━━✥•••✺◈✺•••✥━━━━══
لیٹا ہوا ہوں سایۂ غربت میں گھر سے دور
دل سے قریں ہیں اہل وطن اور نظر سے دور
جب تک ہے دل رہین مآل و اسیر عقل
رہنا ہے تجھ سے اور تری رہ گزر سے دور
اے کیف ان کی مست نگاہوں میں چھپ کے آ
اے درد دم زدن میں ہو میرے جگر سے دور
اک دن الٹنے والی ہے زاہد بساط زہد
کب تک رہے گا دل نگہہ فتنہ گر سے دور
وہ کوئی زندگی ہے جوانی ہے وہ کوئی
اے دوست جو ہے تیرے جمال نظر سے دور
کیا آئی تیرے جی میں کہ تقدیر یوں مجھے
پھینکا ہے لا کے وادئ غربت میں گھر سے دور
اے حسن بے پناہ بتائے کوئی مجھے
دنیا کی کون چیز ہے تیرے اثر سے دور
اللہ رے نصیب کہ پائی ہے وہ فغاں
جو عمر بھر رہی ہے فریب اثر سے دور
الطافؔ ناز اپنی گدائی پہ ہے مجھے
دامن ہے اس کا سایۂ لعل و گہر سے دور
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
🔳 الطافؔ مشہدی 🔳
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ