9؍مارچ 1909*
معروف شاعر” کنور مہندر سنگھ بیدی سحرؔ “ کا جنم دن…
نام کنور مہندر سنگھ بیدی ، تخلص سحرؔ ۔ ۹؍مارچ ۱۹۰۹ء کو منٹگمری(ساہیوال) میں پیدا ہوئے۔ چیفس کالج ،لاہور میں۱۹۱۹ء سے ۱۹۲۵ء تک تعلیم پائی۔ چیفس کالج سے فارغ ہو کر گورنمنٹ کالج، لاہور میں داخلہ لیا۔ انھوں نے تاریخ اور فارسی کے ساتھ بی اے کیا۔ تعلیم سے فارغ ہو کر آئی سی ایس کا امتحان دیا، لیکن کامیاب نہ ہوئے۔ پہلی تقرری لائل پور میں ہوئی۔ وہاں جولائی ۱۹۳۴ء سے دسمبر۱۹۳۵ء تک رہے۔ اس دوران انھوں نے ریونیوٹریننگ لی اور محکمانہ امتحانات پاس کیے۔ ۱۹۳۵ء کے آخر میں ان کا تبادلہ بطور فرسٹ کلاس مجسٹریٹ رہتک ہوگیا۔ یہ گوڑگاؤں میں ڈپٹی کمشنر بھی رہے۔ تقریبا ۳۳ برس ملازمت کرنے کے بعد ڈائرکٹر، محکمہ پنچایت کے عہدے سے ۱۹۶۷ء میں ریٹائر ہوئے۔ کنور مہندرسنگھ بیدی ایک کثیر الجہات شخصیت کی حیثیت سے جانے پہچانے جاتے تھے۔ ان تمام مشغلوں میں شاعری ان کا عزیز ترین مشغلہ رہا ہے۔ وہ کسی کے شاگرد نہیں تھے۔ ان کی شعر گوئی کی عمر تقریباً سات سال کے لگ بھگ ہوگی۔ ان کی شخصیت ہشت پہلو تھی۔ وہ غالب انسٹی ٹیوٹ ، دہلی ترقی اردو بورڈ کے نائب صدر تھے۔ وہ ۱۷؍جولائی ۱۹۹۸ء کو دہلی میں انتقال کرگئے۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:
’یادوں کا جشن‘ (خودنوشت حالات زندگی)، ’کلام کنورمہندر سنگھ بیدی سحر‘ (انتخاب وتلخیص:احمدفراز)۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد اول)،محمد شمس الحق،صفحہ:410
✧◉➻══════════════➻◉✧
معروف شاعر کنور مہندر سنگھ بیدی سحرؔ کے جنم دن پر منتخب اشعار بطورِ اظہارِ عقیدت…
کسی اک آدھ مے کش سے خطا کچھ ہو گئی ہوگی
مگر کیوں مے کدے کا مے کدہ بد نام ہے ساقی
—
مرنا تو لازم ہے اک دن جی بھر کے اب جی تو لوں
مرنے سے پہلے مر جانا میرے بس کی بات نہیں
—
ان شوخ حسینوں کی نرالی ہے ادا بھی
بت ہو کے سمجھتے ہیں کہ جیسے ہیں خدا بھی
—
ﻣﻤﮑﻦ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﮎ ﺭﻭﺯ ﺗﺮﯼ ﺯﻟﻒ ﺑﮭﯽ ﭼﮭﻮ ﻟﯿﮟ
ﻭﮦ ﮨﺎﺗﮫ ﺟﻮ ﻣﺼﺮﻭﻑ ﮔﺮﯾﺒﺎﻥ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ
—
شوخی شباب حسن تبسّم حیا کے ساتھ
دل لے لیا ہے آپ نے کس کس ادا کے ساتھ
—
ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺎ ﮨﻮﮔﺎ ﺍﺛﺮ ﺭﻓﺘﮧ ﺭﻓﺘﮧ
ﻧﻈﺮ ﺳﮯ ﻣﻠﮯ ﮔﯽ ﻧﻈﺮ ﺭﻓﺘﮧ ﺭﻓﺘﮧ
—
ﺗﺠﮫ ﭘﺮ ﮨﯽ ﺳﺤﺮؔ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺗﻮ ﮐﺲ ﺣﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﭨﮯ
ﺟﯿﻨﺎ ﺗﻮ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﻣﯿﮟ ﺳﺰﺍ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ ﺟﺰﺍ ﺑﮭﯽ
—
ﺍﻥ ﺳﮯ ﻣﻠﺘﮯ ﮨﯽ ﻣﺮﮮ ﺩﻝ ﻧﮯ ﮐﯿﺎ ﯾﮧ ﻣﺤﺴﻮﺱ
ﺟﯿﺴﮯ ﺻﺪﯾﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﺮﯼ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺷﻨﺎﺳﺎﺋﯽ ﮨﮯ
—
ﺟﺎﻡ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﮐﻮ ﭘﻼ ﮐﭽﮫ ﮐﻮ ﻧﮕﺎﮨﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﮕﺮ
ﮐﻮﺋﯽ ﻣﮯ ﮐﺶ ﻧﻈﺮ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻧﮧ ﮨﻮﻧﮯ ﭘﺎﺋﮯ
—
پیامِ ﻋﺸﻖ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﺟﺐ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﮨﯽ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ
ﻭﮦ ﺍﮎ ﺳﺎﻋﺖ ﺣﯿﺎﺕِ ﺟﺎﻭﺩﺍﮞ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ
—
ﺗﺮﮎِ ﻃﻠﺐ ﮐﮯ ﻓﯿﺾ ﺳﮯ ﺩﻝ ﺍﺏ ﮨﮯ ﻣﻄﻤﺌﻦ
ﺍﭘﻨﯽ ﺳﺰﺍ ﮐﯽ ﺁﭖ ﺟﺰﺍ ﺑﻦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ ﮨﻢ
—
رُخِ ﻣﻨﻮﺭ ﭘﮧ ﺩﺭ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﻣﺜﺎﻝ ﺍﯾﺴﯽ ﻧﻘﺎﺏ ﮐﯽ ﮨﮯ
ﻣﮧ ﺩﻭ ﮨﻔﺘﮧ ﮐﮯ ﺭﻭﺋﮯ ﺭﻭﺷﻦ ﭘﮧ ﺟﯿﺴﮯ ﭼﺎﺩﺭ ﺳﺤﺎﺏ ﮐﯽ ﮨﮯ
—
ﺍﻥ ﺍﺷﮑﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﮩﻨﺎ ﺑﮭﻮﻝ ﻧﮩﯿﮟ ﻧﺎﺩﺍﻧﯽ ﮨﮯ
ﺗﻦ ﻣﻦ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﺁﮒ ﻟﮕﺎ ﺩﮮ ﯾﮧ ﺗﻮ ﺍﯾﺴﺎ ﭘﺎﻧﯽ ﮨﮯ
—
ﺣﺴﻦ ﺍﮔﺮ ﺯﻭﺩِ ﭘﺸﯿﻤﺎﮞ ﮨﮯ ﺗﻮ ﮨﻮﮔﺎ ﻟﯿﮑﻦ
ﻋﺸﻖ ﺑﮭﯽ ﺯﻭﺩِ ﭘﺸﯿﻤﺎﮞ ﮨﻮ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ
—
ﻣﺮﯼ ﻧﻈﺮ ﮐﮧ ﺟﺴﮯ ﭼﺎﮨﮯ ﺑﮯ ﻧﻘﺎﺏ ﮐﺮﮮ
ﺧﺪﺍ ﻭﮦ ﺩﻥ ﺗﻮ ﺩﮐﮭﺎﺋﮯ ﺟﻮ ﺗﻮ ﺣﺠﺎﺏ ﮐﺮﮮ
—
ﺗﺮﯼ ﻧﮕﺎﮦ ﺗﮭﯽ ﺗﻮ ﺍﮎ ﺟﮩﺎﻥ ﺳﺎﺯﮔﺎﺭ ﺗﮭﺎ
ﺗﺮﯼ ﻧﮕﺎﮦ ﭘﮭﺮ ﮔﺌﯽ ﺗﻮ ﺍﮎ ﺟﮩﺎﮞ ﺑﺪﻝ ﮔﯿﺎ
—
ﺍﺷﮏِ ﺍﻟﻢ ﮨﮯ ﺳﻮﺯﺵِ ﭘﻨﮩﺎﮞ ﻟﺌﮯ ﮨﻮﺋﮯ
ﻗﻄﺮﮦ ﮨﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻇﺮﻑ ﻣﯿﮟ ﻃﻮﻓﺎﮞ ﻟﺌﮯ ﮨﻮﺋﮯ
—
ﮨﻢ ﺗﮭﮯ ﻓﻘﻂ ﻓﺮﺷﺘﮧ ﮨﯽ ﺑﻨﻨﮯ ﭘﮧ ﻣﻄﻤﺌﻦ
ﯾﮧ ﮨﮯ ﺧﺪﺍ ﮐﯽ ﺩﯾﻦ ﮐﮧ ﺍﻧﺴﺎﮞ ﺑﻨﺎ ﺩﯾﺎ
—
ﺯﻧﺠﯿﺮ ﻧﮯ ﮐﯽ ﺟﻨﺒﺶ ﻭﺣﺸﺖ ﻧﮯ ﻟﯽ ﺍﻧﮕﮍﺍﺋﯽ
ﺷﺎﯾﺪ ﮐﮧ ﺑﮩﺎﺭ ﺁﺋﯽ ﺷﺎﯾﺪ ﮐﮧ ﺑﮩﺎﺭ ﺁﺋﯽ
—
ﺣﺸﺮ ﻣﯿﮟ ﯾﻮﮞ ﺑﮭﯽ ﻣﻼﻗﺎﺕ ﺗﻮ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ
ﮐﯿﻮﮞ ﻋﺒﺚ ﺗﺠﮫ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻭﻋﺪۂ ﻓﺮﺩﺍ ﻣﺎﻧﮕﮯ
—
ﺳﺤﺮؔ ﺍﺱ ﺟﮩﺎﻥ ﺑﮩﺎﺭ ﺧﺰﺍﮞ ﻣﯿﮟ
ﺧﻮﺷﯽ ﺩﺍﺋﻤﯽ ﮨﮯ ﻧﮧ ﻏﻢ ﺟﺎﻭﺩﺍﻧﯽ
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
کنور مہندر سنگھ سحرؔ