آج کی زنانہ شاعری ایک ادبی مسٔلہ ہے یا نفسیاتی
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جن شاعرات نے ادب کے دور جدید میں نمایاں تخلیقی صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔ان میں ادا جعفری سے زہرہ نگاہ۔ پروہین شاکر ۔فہمیدہ ریاض اور کشور ناہید کے علاوہ بھی بہت نام ہیں ۔ایک وقت تھا جب خواتین اور ان کی شاعری دونو کے شمع انجمن ہونے پر پابندی تھی تب بھی کچھ نام اقلیم سخن سے منسوب ہوےؑ مثلا" نورجہاں یا اورنگ زیب کی بہن زیب النسا اور امراو جان ادا ۔۔ لیکن بیسویں صدی میں "شرفا" کے گھر کی عورتوں کیلےؑ بھی تعلیم کی حیثیت شجر ممنوعہ کی نہ رہی تو شاعرات بھی محفل شعرو سخن میں نظر انے لگیں
اکیسویں صدی میں "فیس بک" نے اظہار کا لامحدود عالمی وسیلہ فراہم کیا تو دنیا بھر کے لوگ ایک کمپیوٹر اسکرین پرجمع ہوگےؑ اور بقول جون ایلیا وہ بھی لکھنے لگے جن کو پڑھنے کی ضرورت تھی۔اس میں کچھ خواتین کی باتصویر شاعری نے بڑی سنسنی خیزی پھیلایؑ۔اکثریت میں قیامت ڈھانے والی ہر نیؑ پروفایلؑ پکچر پر واہ واہ اور ان کے ہر بے سرو پا شعر پر داداوتحسین کا شور بپا کرکے "ٹھرکی" کا خطاب پانے والے" ہمیشہ غالب اکثریت میں رہے
رفتہ رفتہ ان سنسنی خیز خود نمایؑ والی شاعرات کے بارے میں "شرم ناک" انکشافات کے در کھل گےؑ۔۔ "متا شاعرات" ۔۔۔ (ممکن ہے لفظ متعہ شاعرات ہو)۔۔ کیلےؑ تو یہی سرمایہ افتخار تھا۔۔؎ بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا۔ خود مجھے سال بھر پہلے کراچی کی ہر پر تکلف نجی محفل میں ان شاعرات کے کلام سے مستفید ہونے کا موقعہ ملا جن کیلےؑ شعر کے وزن سے زیادہ اپنا وزن اور حسن معانی سے زیادہ اپنے حسن جسمانی پرناز تھا۔ غنیمت ہے کہ محفل میں دوچار سکہ بند شعرا بھی تھے ان صاحب دیوان شاعرات کے بے وزن و بے بحر اشعارپر بھی داد دینا "ایٹی کیتس" کی مجبوری تھی۔۔جو میں نے بھی عقل پر پتھر رکھ کے نبھاےؑ۔دل پر پتھر رکھنے کی عمر نہیں رہی
یہ میرے لےؑ نیا تجربہ نہیں تھا۔چار سال ہوےؑ مجھے شہرت کی سند نہ رکھنے کے باوجود سفارشی شاعر کے طور پر جشن سوات کے ایک مشاعرے میں بلالیا گیا شعرا مولانا فضل ا لرحمنٰ کے دوست غالبا" حبیب شیروانی کے ہوٹل میں مقیم تھے جو عین دریاےؑ سوت پرتھا۔۔گراونڈ فلور پر شاعرات۔فرسٹ فلور پر شاعراور ٹاپ فلور پرریسٹورنٹ جہاں دن بھر چاےؑ کافی چلتی تھی اورگپ شپ۔ یہ مشاعرے سے ایک شب پہلے کی بات ہے جوواپسی کے سفر میں مجھے فیصل اباد کے ایک مشہور شاعر نے بقلم خود سنایؑ کہ
" کل رات گیارہ بجے جب دریا اور تیرھوین شب کی چاندنی بھی خوابیدہ تھی۔دروازہ کھولا تو ایک شاعرہ مجسم پیکر حزن و ملال زلف پریشاں اورچشم پر نم۔اندر آکے دروازہ بند کیا صوفے پر بیٹھ گییؑن ۔میں نے خیری پوچھی تو ایسی آہ سرد بھری کہ کمرہ ایر کنڈیشنڈ ہوگیا۔"میں بڑی مصیبت میں بدنامی کا خطرہ مول لے کربڑی توقعات کے ساتھ ایؑ ہوں"۔میں نے پانی کا گلاس پیش کیا اور ساتھ بیٹھ کے کہا"میں کچھ کر سکتا ہوں تو فرماییؑے"۔۔۔ان کی آنکھوں سے اشک رواں ہوگےؑ بتایا کہ وہ ایبٹ اباد سے آیؑ ہیں جہاں ان کا فلاں مشہور شاعر دوست تھا،وقت ضرورت غزل لکھ دیتا تھا۔اس نے کہا تھا کہ سوات آے گا تو غزل لکھ دے گا "مگر وہ کمینہ میری عزت داو پر لگا کےدوبیؑ کے مشاعرے میں چلاگیا۔ اب میں کل کیا پڑھوں گی "۔ شاعر نے ان کو تسلی دی کہ "پریشان نہ ہوںآپ کی "عزت" محفوط رہے گی اور سب سے زیادہ داد آپ کو ملے گی"۔۔ اور ایس ہی ہوا"
میں یہ سانحہ بھول گیا تھا لیکن گزشتہ سال کا تجربہ مجھے افسوسناک لگا تو میں نے ایک سطحی سا تجزیہ پوسٹ کردیا جو صرف ان خواتین کی بدذوقی تک محیط تھا۔اس کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ لباس مجاز میں حقیقت منتظر تو کچھ اور ہی ہے۔ جو محرم راز دروں میخانہ تھے انہوں نے ہرپردہ اٹھادیا کہ کون معشوق ہے کس پردہ زنگاری میں۔۔اورشاعر کون ہیں جو "بک جاتے ہیں ہم آپ متاع سخن کے ساتھ " کا سایؑن بورڈ ہیں۔۔بدلا زمانہ ایسا کہ پیشہ کرنے والی صرف عورت نہ رہی۔مرد بھی شاعری کے کوٹھے پر بیٹھ گےؑ☺️☺️
اس رسوا کن صورت حال سے جینویؑن شاعرہ کی انا جایؑز طور پر سخت مجروح ہویؑ اور وہ خود ان متشاعرات کے خلاف زیادہ شدت سے صف آرا ہو گییؑن ۔۔ سوال ایک ذہن میں آیا کہ شاعری ہی کیوں۔۔انجمن تعلق باہمی کی نیک نامی افسانہ نگاری کے حسے میں کیوں نہیں ایؑ۔۔تو جواب سادہ ہے کہ شاعری آسان ترین صنف ادب سمجھ لی گیؑ ہے۔کیسی بحر اور کہاں کا توازن۔۔بس ردیف قافیہ ملاو اور 3 انچ سے 6 انچ لمبایؑ والے اشعارکی غزل لکھ کے دے دو حسن غزل کون دیکھتا ہےاگر شاعرہ کا حسن و شباب دیکھنے والا ہو۔۔اور حسن تو سچ کہتے ہیں کہ دیکھنے والے کی نظر میں ہوتا ہے ورنہ دوبیؑ کی یہ شاعرہ۔۔۔
اس میں کیا شک کہ عورت توجہ مانگتی ہے تعریف چاہتی ہے۔عدم توجہی کا شکار عورت جھوٹ کے سکے میں بھی بک جاتی ہے۔آج کے دور میں شاعری کہیں نہیں بکتی تو دیوان کون شایع کرے،،پبلشر بزنس مین ہے چار پیسے نہ کما سکے تو کتاب کیوں چھاپے۔۔اب پانچ سات کو چھوڑ کر سب شاعر اپنے خرچ اور رسک پردیوان چھاپتے ہیں اور ذاتی خرچ اور تعلقات کی بنیاد پرمفت تقسیم کر دیتے ہیں۔۔
صاحب دیوان شاعرات میں اکثر صاحب ثروت بھی ہیں۔۔میں نے ان کے شاہانہ گھر بھی دیکھے اور جوان بچے بھی اور گاڑی بھی۔۔ بس شوہر نہیں دیکھے ۔۔وہ پیسہ کمانے میں اتنے مصروف ہیں کہ کچھ تو گھر بھی صرف سونے اور کپڑے بدلنے کیلےؑ آتے ہیں اور کبھی نہیں بھی آتے۔ بیوی ان کیلےؑ 40 سال کی عمر میں ہی دیکھنے کی چیز نہیں رہتی۔۔اسے گھر کا ارام پیسہ اور آزادی دے دی۔اب اور کیا چاہےؑ۔۔اس رویہ کے ساتھ عورت توجہ خریدتی ہے۔خواہ وہ بے ڈول اوربا وزن ہو جاےؑ۔جوان بچوں کی ماں ہو لیکن نہ وہ بوڑھی ہوتی ہے نہ یہ بات تسلیم کر سکتی ہے۔وہ بیوٹی پارلر سے اورڈیزایؑنر ملبوس سے دلکشی خریدتی ہے ۔۔ پھر۔وہ جنسی توجہ کا مارا کوییؑ بھی پھکڑشاعر خرید لیتی ہے۔ جنس بازارکیا نہیں۔۔چاہنے والے مرد کراےؑ پر دستیاب ہیں تو حرج کیا ہے،سب بک رہا ہے۔۔
۔۔۔ شاعری کی آبرو کے سوا۔۔ وہ محفوظ ہے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔