ہم نے بچپن سے یہ سنا ، پڑھا ہے کہ اکیسویں صدی کی دنیا ایک گلوبل ویلج یعنی عالمی گاؤں ہے ۔۔۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا ہر چپے چپے کونے کونے تک رسائی رکھنے والے تیز زرائع آمد و رفت اور پھر زرائع ابلاغ نے فاصلوں کو اتنا سمیٹ دیا ہے کہ اب دنیا ایک خاندان یا کمیونٹی کی صورت اختیار کر چکی ہے۔۔۔۔ جہاں جدید زرائع آمد و رفت نے مہینوں کے سفر کو گھنٹوں اور گھنٹوں کے سفر کو منٹوں تک محدود کردیا ہے وہیں اس جدت نے سفر کو پہلے کی نسبت کہیں محفوظ اور آرام دہ بنا دیا ہے۔
بات کریں زرائع ابلاغ کی تو فون ، فیکس ، ٹیلیگراف تو ماضی کی بات ہوئی اب تو ہر کسی کی جیب میں موبائل کی صورت میں دنیا کا تیز ترین اور موثر ترین مواصلاتی آلہ موجود ہے۔۔۔۔الغرض۔۔۔۔ آج جو آلات و سہولیات ہمارے روز مرہ کے معمول کا حصہ ہیں ۔۔۔ وہ اپنے دور کی سب سے بڑی سلطنتوں جیسے سلطنت روم ، سلطنت مصر، سلطنت فارس ، منگول سلطنت کے سبھی بادشاہ بھی ان سہولیات کا تصور نہ کرسکتے تھے ۔
سات سمندر پار کسی لڑکی پے ٹھرک جھاڑنے سے لے کر دوسرے براعظم میں کروڑوں روپیہ کی کاروباری ٹرانزیکشنز تک آپ چند سیکنڈ کے اندر ، چند بٹن دبا کر سر انجام دے سکتے ہیں۔
لیکن۔۔۔۔۔
یہ تو ہو گئیں مضمون والی باتیں ۔ جو ہم تب لکھتے ہیں جب انگلش کے پیپر میں Means of Communication یا Modern Transportation پر کوئی مضمون آجائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر ہم حقیقت کی دنیا میں جی کر دیکھیں تو دنیا گلوبل ویلج نہیں بلکہ گلوبل کیج یعنی عالمی پنجرہ محسوس ہوگی ۔
آج سے چند ہزار سال قبل کی دنیا کا تصور کیجئیے۔ ریاستیں ، سلطنتیں اور ممالک تب بھی وجود رکھتے تھے ۔ لیکن کوئی بھی انسان بلا روک ٹوک گھوڑے کی پشت پر ایک ملک سے دوسرے ملک میں داخل ہوسکتا تھا ۔۔۔ وہاں کاروبار ، تجارت ،کھیتی باری ، گلہ بانی اور شادی کرسکتا تھا ۔۔۔ وہیں مقیم ہو کر زندگی گزار سکتا تھا ۔
فاصلے بھلے ہی طویل تھے مگر خدا کی زمین سب پر وسیع تھی۔
کرہِ ارض کو ہم نے سینکڑوں چھوٹے بڑے پنجروں اور زندان میں بدل دیا ہے۔
زرا تصور کریں آپ کسی ملک کے سرحدی قصبے میں رہتے اور دوسرے ملک کا سرحدی قصبہ وہاں سے محض 10 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔۔۔اور آپ وہاں مقیم ہونا چاہتے ہیں!!
آپ کو اس 10 کلومیٹر کے سفر کے لیے کیا کچھ پاپڑ نہیں بیلنے پڑیں گے۔۔۔؟
اگر تو آپ بغیر مستند دستاویزات کے یعنی “غیر قانونی” طور پر سرحد عبور کرنا چاہیں تو یا تو سرحدی محافظوں کی گو••لی کا نشانہ بنیں گے یا کسی با•ر•ودی سرنگ پے پاؤں دھر بیٹھیں گے ۔۔۔
چنانچہ سب سے پہلے پاسپورٹ کا انتظام کرنا ہوگا ۔۔۔ جس کے حصول میں وقت اور روپیہ دونوں خرچ ہوگا ۔
پھر۔۔۔ ایک بھاری رقم ، ممکن ہے کئی ماہ یا چند سال کی بچت یا پھر ادھار کی رقم ، ویزے کے حصول پر خرچ ہوگی۔۔۔سٹڈی ویزا ، ورک ویزا ، ٹور ویزا اور آزاد ویزا ۔
آپ کو ایمبیسی کے چکر کاٹنے پڑیں گے، بھاری رقم خرچ کرنے کے بعد ویزا پراسیس ہونے کا انتظار کرنا پڑے گا جو کئی ماہ طویل بھی ثابت ہوسکتا ہے ۔
اور پھر آپ اس قابل ہوں گے کہ ایک فرضی لکیر کی دوسری طرف قدم رکھ سکیں ۔۔۔۔
۔
اگر آپ اس ملک کی شہریت اختیار کرنا چاہیں ، تو یا تو آپ کو وہاں 5 سے 10 سال کی مدت رہ کر وہاں کام کرنا پڑے گا ۔
یا پھر وہاں کے کسی شہری سے شادی کرنی پڑے گی۔ (کئی ممالک میں یہ سہولت بھی نہیں).
یا پھر ایک بھاری رقم جو چند لاکھ ڈالرز سے کئی ملین ڈالرز کے مساوی ہوسکتی ہے اسے اس ملک میں انویسٹ کرنا پڑے گا ۔۔۔۔ تب جاکر سرحدی باڑ کے اس جانب رہنے کے قابل ہو سکیں گے ۔
ورنہ ویزا ختم ہونے کے بعد ‘لکیر کے پار’ کی سرزمین کی فضا میں سانس لینا بھی آپ کے لیے ایک جرم ہوگا اور وہاں آپ “غیر قانونی انسان” تصور کیے جائیں گے ۔۔۔ جس کی سزا ملک بدر کردینے سے لے کر کئی سال قید تک ہوسکتی ہے۔
گویا دنیا کو ، جیسا کہ میں نے کہا سینکڑوں چھوٹے بڑے پنجروں میں تقسیم کردیا ہے۔۔۔۔ اور پھر ۔۔۔۔ ” ہمیں اپنے پنجرہ پر فخر ہے اور دوسرے پنجروں و ان کے قیدیوں سے نفر•ت یا حقارت “.
ہمیں سرحد کے آر والی مٹی سے عشق سے اور پار والی مٹی سے مخالفت ۔۔۔۔ اس کے نتیجے میں پھر پنجروں کے بھی طبقات بن گئے ۔
ایک پنجرے میں دولت کی ریل پیل ہے تو دوسرے میں غربت و بھوک و افلاس کے ڈیرے۔۔۔۔
ایک پنجرے میں امن و امان ہے تو دوسرے میں جنگ و جدل ، خانہ جنگی اور کشت و خون ۔۔۔۔
ایک پنجرے میں وسائل کی فراوانی کے تو دوسرے میں قحط و قلت !
ایک پنجرہ سیراب پے تو دوسرا بےآب۔۔۔
ہم اس بات پر تو خوش ہوجاتے ہیں کہ ہم سونے کے پنجرے میں ہیں اور ساتھ والا پنجرہ زنگ آلود لوہے سے بنا ہے۔۔۔۔ لیکن ہم یہ نہیں سوچیں گے کہ چلو دونوں ہی فولاد کے پنجرے میں رہ لیتے ہیں لیکن درمیانی سلاخوں کو کاٹ دیں ۔
۔
اور پھر زمین کے بعد ہم نے ہوا اور پانی کے
بھی ٹکڑے کر ڈالے ۔۔۔ ہر ملک کی فضائی اور سمندری حدود بھی متعین ہوگئیں ۔
کوئی مچھیرا اگر اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کی غرض سے مچھلی پکڑنے کے لیے زرا سمندر میں دور جا نکلے اور کسی دوسرے ملک کی بحری حدود میں شامل ہوجائے تو یا تو اسے دیکھتے ہی شو•ٹ کردیا جائے گا یا وہ کئی سال اس ملک کی جیل میں گزارے گا ۔۔۔
زمین ، ہوا ، پانی اور انسانیت تک کو ہن نے تقسیم کردیا ہے۔۔۔۔ تو کیا یہ دنیا گلوبل ویلج کہلانے کی لائق ہے یا گلوبل کیج ؟
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...