آج – 21؍ستمبر 2008
خواتین شعرا میں ایک نامور شاعرہ” صفیہ شمیمؔ صاحبہ “ کا یومِ وفات…
نام صفیہ بیگم تخلص شمیمؔ ہے
وہ 27؍مارچ 1920ء کو ملیح آباد میں ایسے گھرانے میں ھوئی جو معزز و مقتدر ھونے کے علاوہ نہایت باذوق گھرانا تسلیم کیا جاتا تھا ۔ جس میں شاعری کئی پشتوں سے چلی آ رھی تھی ۔ چنانچہ شمیم صاحبہ کے مورث اعلیٰ حسام الدولہ تہور جنگ نواب فقیر محمد خان گویا سے لیکر آپ کے پر نانا نواب محمد احمد خان احمد تعلقدار کسمنڈی اور نانا نواب بشیر احمد خان تعلقدار ملیح آباد تک کوئی بزرگ ایسا نہیں ھے جو صاحبِ دیوان شاعر نہ ھو ۔ پھر سب سے آخر میں محترمہ کے حقیقی ماموں شاعرِ انقلاب حضرت جوش ملیح آبادی کے نام سے تو کون واقف نہیں ھے ۔ غرضیکہ اس خاندانی تعلق کی موجودگی میں شمیم صاحبہ کا شعری ذوق بجا طور پر موروثی کہلانے کا مستحق ھے۔
صفیہ شمیم صاحبہ کا قیام عموما لکھنو میں رھا اور وھیں سے ابتدائی تعلیم حاصل کی ۔ اور اس کے بعد گھر پر علمی شوق پورا کرتی رھیں ۔ اور یہیں انہیں وہ ادبی صحبتیں نصیب ھوئیں جن کی بدولت ان کا فطری شاعرانہ مذاق پروان چڑھا ۔ تقسیم ھند کے بعد آپ اپنے شریک حیات کے ساتھ پاکستان تشریف لے آئیں ۔ اور راولپنڈی میں قیام پذیر ھوئیں ۔ آپ کا کلام مختلف ادبی رسائل " ماہِ نو ، ساقی ، مخزن اور ھمایوں وغیرہ میں اکثر شائع ھوتا رھا ۔ صفیہ شمیم صاحبہ نے دس سال کی عمر میں شعر کہنا شروع کیا ۔ وہ حضرت جوش ملیح آبادی کے رنگ سے خاصی متاثر تھیں ۔ محترمہ شمیم غزل ، نظم ، رباعی غرضیکہ ھر صنف میں طبع آزمائی کرتی رھیں ۔ آپ کے کلام میں رومانوی عنصر غالب ھے مناظر فطرت کی تصویرکشی میں آپ کو کمال حاصل تھا یہی وجہ ھے کہ اپنے دور میں ان کا مقام صف اول کی شاعرات میں کیا جاتا تھا ۔ آپ پاسبان کی نائب مدیرہ اور صبح نو کی مدیرہ بھی رھیں ۔ آپ کا انتقال راولپنڈی میں ٢٠؍ستمبر ٢٠٠٨ء کو ھوا۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:
’گریۂ تبسم‘، ’آہنگ شمیم‘، ’نوائے حجاز‘ (نعتیہ کلام) ۔
✨ پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤
ممتاز خاتون شاعرہ صفیہ شمیمؔ کے یومِ وفات پر منتخب کلام بطور خراجِ عقیدت…
گر ہے نئے نظام کی تخلیق کا خیال
آبادیوں کو نذر بیاباں تو کیجیے
گر جلوۂ جمال کی دل کو ہے آرزو
اشکوں سے چشم شوقِ چراغاں تو کیجیے
ہونا ہے دردِ عشق سے گر لذت آشنا
دل کو خراب تلخیٔ ہجراں تو کیجیے
اک لمحۂ نشاط کی گر ہے ہوس شمیمؔ
دل کو ہلاک حسرت و ارماں تو کیجیے
●━─┄━─┄═•✺❀✺•═┄─━─━━●
وہ حسرتِ بہار نہ طوفانِ زندگی
آتا ہے پھر رلانے کو ابرِ بہار کیوں
آلام و غم کی تند حوادث کے واسطے
اتنا لطیف دل مرے پروردگار کیوں
جب زندگی کا موت سے رشتہ ہے منسلک
پھر ہم نشیں ہے خطرۂ لیل و نہار کیوں
جب ربط و ضبط حسنِ محبت نہیں رہا
ہے بار دوش ہستئ ناپائیدار کیوں
رونا مجھے خزاں کا نہیں کچھ مگر شمیمؔ
اس کا گلہ ہے آئی چمن میں بہار کیوں
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
صفیہ شمیمؔ
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ