سر سید احمد خان نے جب یونیورسٹی کے قیام کا منصوبہ بنایا تھا تو اس میںطلبا کی تعلیم کے ساتھ تربیت پر بھی توجہ مرکوز کی تھی ۔وہ چاہتے تھے کہ طلبا جدید معاشرہ کا روشن باب بنیں۔انھیں ایک خاص طرح کی تربیت دینے کی ضرورت بھی سر سید نے محسوس کی تھی۔ہاسٹل کا قیام اسی منصوبہ کا اہم حصہ تھا۔جن کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا ہے انھیں محسوس ہوا ہوگا کہ ایک ہی کمرے میں الگ الگ مضامین کے طلبا جمع ہوتے اور ایک دوسرے کے مضمون کی بنیادی معلومات باتوں ہی باتوں میںحاصل کر لیتے تھے۔کیا میڈیکل اور کیا انجنیرنگ سبھی ادب اور شاعری سے شغف رکھتے تھے ایسے میں انکی اتنی تربیت ضرور ہوجاتی تھی کہ وہ نہ صرف یہ کہ شعر کو سمجھ لیتے تھے بلکہ اس سے محظوظ بھی ہوتے تھے۔یہ روایت آج بھی زندہ ہے ۔سر سید کی اس روایت کو کئی دوسری یونیورسٹیوں نے بھی مستعار لیا۔آئی آئی ٹی کانپور کے طلبا کی شعر و ادب سے عدم واقفیت انھیں دنیا بھر میں مضحک خیزصورت حال سے دوچار کرا رہی ہے۔وہ بیشک ایک اعلی پیشیور تعلیم کی حصولیابی کے لئے کوشاں ہیں اور ملک کی تعمیر و تشکیل میں اہم کردار نبھا سکتے ہیں ۔ پر افسوس !وہ اگر یہ نہیں سمجھ سکتے کہ ایک ایسا شاعر جس نے ہمیشہ بناتفریق مذہب و ملت مظلوموں کے حق میں حکومت وقت سے لوہا لیا ہے تو ان کے علم سے معاشرہ کو کیا فیض حاصل ہوگا۔وہ اگر فیض جیسے شاعرکومذہبی تعصب کے چشمے سے دیکھنے لگیں گے تو ان کے ناقص علم پر سوال تو اٹھینگے ہی۔خیر یہ تو طالب علم ٹھہرے لیکن جب ٹی وی اینکر بھی یہ پوچھنے لگیںکہ فیض ہندوستان سے پاکستان کیوں چلے گئے؟تو سر پیٹنے کے علاوہ آپ کچھ نہیں کر سکتے۔
فیض احمد فیض نروول سیالکوٹ (پاکستان )میں پیدا ہوئے تھے۔وہ جب لاہور میں درس و تدریس میں مصروف تھے تب شیخ عبدالللہ کی بیٹی ڈاکٹر رشید جہاں نے ترقی پسند تحریک کے علمبردار سجاد ظہیر کی ملاقات فیض سے کرائی تھی۔سجاد ظہیر نے فیض کو ترقی پسند تحریک سے اس طرح جوڑا کہ وہ تاعمر اس تحریک سے وابستہ رہے۔فیض حقیقی معنوں میں ترقی پسند تھے۔وہ ایک ایسے معاشرہ کی تشکیل چاہتے تھے جس میں ہر مظلوم کے ساتھ انصاف ہو۔ ان کے لئے مظلوم ،مظلوم تھا ،ہندو یا مسلمان نہیں ۔فیض بامقصد شاعر تھے انھوں نے ملک کی آزادی کے لئے سو جتن کئے اور جب آزادی ملی تو وہ اس آزادی سے اس لئے مطمئن نہیں ہوئے کیوں کہ حالات میں وہ تبدیلی نہیں دکھائی دیتی تھی جس کے لئے فیض نے کہا تھا:
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل
کہیں تو ہوگا شب سست موج کا ساحل
کہیں تو جاکے رکے گا سفینہ غم دل
آزادی کے بعد جس طرح ملک تقسیم ہوا ،فسادات ہوئے،لاکھوں افراد بے گھر ہوئے،قتل و غارت گری ہوئی اس نے فیض کو اندر تک لرزا دیا تھا۔تب وہ کہ اٹھے :
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
جب انھوں نے نظم ’صبح آزادی‘ لکھی تو خود ان کے ساتھیوں نے ہی ان پر طنز کیا تھا۔وہ تو فیض کو ترقی پسند ماننے سے بھی منکر ہونے لگے تھے۔پاکستان بنانے والے کہنے لگے کہ وہ تو پاکستان مخالف ہیں۔یہاں تک کہ انھیں ملک بدر ہونا پڑا۔باوجود اس کے فیض نے اپنے کمٹمنٹ سے کبھی منھ نہیں موڑا۔
۱۹۷۵ تا ۱۹۷۸ کے درمیان کا وقت ہند و پاک کی سیاست کا اہم ترین دور ہے۔اس وقت میں جہاں ہندوستان میں ایمرجنسی اور اس کے بعد جمہوریت کی واپسی ہوئی تو دوسری طرف پاکستان میںجمہوریت کے خاتمے اور فوجی حکومت کا قیام عمل میں آیا۔جنرل ضیا الحق نے ذولفقار علی بھٹوکی حکومت کا تختہ پلٹ کر دیا تھا اور تب عوام پر جو ظلم و ستم ہوا اس پر فیض بھلا کیسے خاموش رہ سکتے تھے۔لہذا انھوں نے ۱۹۷۹ میں نظم ’’ہم دیکھیں گے،لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘‘ تحریر کی ۔یہ نظم تاناشاہی اور بربرتا کے خلاف احتجاج کا ایک استعارہ بن گئی۔اس نظم نے تانا شاہی اور فوجی ظلم و ستم کے خلاف عوام میں زبردست بیداری پیدا کی تھی ۔یہ سمجھ لینا بھی ضروری ہے کہ اس وقت جنرل ضیاالحق نے عوام پر اسلام کی آڑ لے کرکئی ایسے احکام نافذ کرانے کی کوشش کی جو غیر ضروری تھے۔فیض کی وفات(۱۹۸۴ )کے ایک سا ل بعدمعروف گلوکارہ اقبال بانو نے حکومت کے حکم ’مسلم خواتین ساڑی نہ پہنیں‘ کی نافرمانی کرتے ہوئے جب اس نظم کو اپنی آواز دی تو اس نے ضیا حکومت کے سامنے زبردست چیلنج کھڑا کر دیا تھا۔ساڑی جوکہ ہندو خواتین کا محبوب پہناوا ہے اس کے حق میں اس نظم کے ذریعہ آواز اٹھائی گئی تھی۔اگر اس کے باوجود آج اس نظم پر ہندو مخالف ہونے کا ٹیگ لگانے کی کوشش ہوئی ہے تو اس کو ناسمجھی ،غلط ذہن سازی،اور کم علمی سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
سوال یہ کہ فیض اس نظم میں کیا کہہ رہے ہیں اور اس کو کیا سمجھا جا رہا ہے؟فیض کہہ رہے ہیں کہ ہم دیکھیں گے کہ ایک دن ایسا ضرورآئے گا جبکہ ظلم و ستم روا رکھنے والے وہ تمام تاناشاہ جو خود کو خدا سمجھ بیٹھے ہیںان کا خاتمہ ہو جائیگا اور ان لوگوں کا راج قائم ہوگا جن کے حقوق آج پامال کئے جا رہے ہیں۔ آج کے پاک صاف مظلوم لوگ جب مسند نشین ہونگے تو ہر طرف حق کی آواز بلند ہوگی۔سب کے ساتھ انصاف ہوگا۔ کیا اس مفہوم سے کسی کو دقت ہو سکتی ہے؟تو پھر دقت کس بات سے ہے؟دقت ہے ان کو جن کی ایک مخصوص انداز میں ذہن سازی کی جا رہی ہے۔پریشانی ہے ان کو، جن کو شعری ذوق سے دور کا بھی واستہ نہیں اور ایسے میں استعاروں ،تشبیہوں کی بات سمجھنے کا مطالبہ تو بے معنی ہی ہے۔اب سوال یہ ہے کہ جس بارے میں ہم کچھ جانتے ہی نہیں یا پھر جس کے بارے میں ہم بہت کم جانتے ہیں اس میں ٹانگ اڑائیں کیوں؟بس یہیں مشکل کھڑی ہو جاتی ہے۔
ہندوستان میں جس طرح کا معاشرہ پرورش پا رہا ہے اس میں سیاسی نفع نقصان نے اہمیت اختیار کر رکھی ہے ۔اس ماحول کے تحت بعض افراد کا ایک گروہ ایک خاص ذہن کے ساتھ بنا سوچے سمجھے ری ایکٹ کرنے لگا ہے۔اب اس کے لئے ان کی جگ ہنسائی ہو تو ہو انھیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔اندھ بھکتی کے اس دور میںبعض وقت حالات اس قدر خطرناک ہو جاتے ہیں کہ سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے۔تو پھر کیا کیا جائے؟
لازمی ہو چلا ہے کہ سر سید احمد کے تعلیم کے ساتھ تربیت والے فارمولے پر عمل کیا جائے تاکہ ہر طبقے کے لوگ جب ایک جگہ جمع ہوں تو وہ ایک دوسرے کو اپنا سمجھیں ایک دوسرے کے دکھ درد میں شامل ہوں اور ایک دوسرے کی خوشیوں میں بے خوف شامل ہوں۔بہتریہ بھی ہوگا کہ ملک بھر میں ایسی تعلیم کا بندوبست کیا جائے جس میں طلبا کوادب اور شاعری سے بھی روشناس کرایا جائے۔میڈیکل اور انجینیرنگ سے لے کر ہر طرح کی تعلیم کے ساتھ ادب کی تعلیم ملنے سے ایسے ناخوشگوار واقعات کو روکا جاسکے گا جیسا فیض کی نظم کے ساتھ ہوا۔بہر حال اس سے فیض کو تو فائدہ ہی ہوا کہ ایک بار پھر ان کی شاعری کی عظمت، اہمیت اور افادیت سامنے آئی ۔یہ اچھا ہی ہوا کہ خردمندوں نے بہت جلد معاملے کو سمجھ لیا اور فیض کو محدود کرنے کی سازش ناکام ہو گئی۔
فیض نے کیا خوب کہا ہے:
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔