آج اردو زبان و ادب کے ممتاز استاد، محقق، نقاد اور مصنف ڈاکٹر عبادت بریلوی کی برسی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر عبادت بریلوی کا اصل نام عبادت یار خان تھا اور وہ 14 اگست 1920ء کو بریلی (یوپی) میں پیدا ہوئے تھے۔
1942ء میں انہوں نے لکھنؤ یونیورسٹی سے ایم اے اور 1946ء میں اسی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
انہوں نے تدریس کے شعبے سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا اور لکھنؤ یونیورسٹی اور دہلی یونیورسٹی سے وابستہ رہے۔
قیام پاکستان کے بعد انہوں نے لاہور میں اقامت اختیار کی اور اورینٹل کالج لاہور سے منسلک رہے۔ آپ کی تصانیف میں اردو تنقید کا ارتقا، تنقیدی زاویے، غزل اور مطالعۂ غزل، غالب کا فن، غالب اور مطالعۂ غالب، تنقیدی تجربے، جدید اردو تنقید، جدید اردو ادب، اقبال کی اردو نثر اور شاعری اور شاعری کی تنقید کے نام سرفہرست ہیں۔
ان کے سفرناموں میں ارض پاک سے دیار فرنگ تک، ترکی میں دو سال، دیار حبیب میں چند روز اور لندن کی ڈائری کے نام شامل ہیں۔
19 دسمبر 1998ء کو ڈاکٹر عبادت بریلوی لاہور میں وفات پاگئے۔
وہ لاہور میں سمن آباد کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبیحہ خان کی ایک تحریر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اپنی ذات میں اسم با مسمیٰ تھے، یوں کہ لوگ عبادت کی حد تک ان سے محبت اور عقیدت کرتے۔ان کی نیکی ،ہمدردی،خلو ص اور نرم رویے کے قصیدے پڑھے جاتے ۔دور دور تک ان کا طوطی بولتا۔آپ اردو پڑھیں اور ان کا تذکرہ نہ ہو ،ممکن ہی نہیں تھا۔ڈاکٹر عبادت بریلوی کا آبائی گھر تو بریلی میں تھا، لیکن ان کے والد بسلسلہ روزگار لکھنو آگئے اور وہیں مستقل قیام کیا۔
ان کا کنبہ آٹھ بھائیوں اور دو بہنوںپر مشتمل تھا۔ یہ سب سے بڑے تھے۔ ان سب بھائیوں نے لکھنوکے امین آباد اسکول سے تعلیم پائی۔وہاں کے استاد محنت، لگن، شفقت اور محبت کی خصوصیات سے مالا مال تھے۔ یہی اثرات عبادت صاحب کی شخصیت میں بھی نظر آتے۔ امین آباد ہائی اسکول سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد جوبلی کالج، لکھنو میں داخلہ لیا اور وہاں سے انٹر کیا۔ اس کے بعد لکھنو یونیورسٹی میں گئے جہاں سے ایم ۔اے اردو اور پی ایچ ڈی کی۔
تعلیم مکمل ہوئی، تو اینگلوعریبک کالج،دہلی میں ملازمت مل گئی۔ قائداعظم اور لیاقت علی خاں بھی اس تعلیمی ادارے کے صدر رہے ہیں۔یہ ۱۹۴۴ء کا دورتھا۔ تب تک دہلی مسلم لیگ کا گڑھ بابائے اردو، بن چکا تھا۔ لیکن جب پاکستان بن گیا اور ڈاکٹر مولوی عبدالحق بھارت سے پاکستان چلے گئے، تو اس کالج کی دنیا ہی بدل گئی۔ مسلمانان دہلی بھی پاکستان ہجرت کرنے لگے۔ لیکن عبادت صاحب ۱۹۵۰ء تک وہیں رہے۔ آخر مولوی عبدالحق کے مشورے سے پاکستان آئے اور اورینٹل کالج ،لاہور سے ملازمت کا آغاز کیا۔
انھوں نے اپنی سوانح حیات ’’یاد عہد رفتہ‘‘ میں اپنی زندگی کا نقشہ بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ وہ ایک جگہ لکھتے ہیں ’’جب میں نے پاکستان میں پہلا قدم رکھا، تو میرے آنسو رکتے ہی نہیں تھے ،خدا جانے کیوں؟ محبت اور طمانیت کا احساس بھی انسان کو کبھی کبھی رلا دیتا ہے‘‘۔شاید ایسا ہی ہو۔
پاکستان میں کئی رشتہ دار تھے،لیکن وہ اپنے ماموں زاد بھائی کے ہاں ٹھہرے جن کا مکان مال روڈ پر تھا۔ وہاں سے اورینٹل کالج قریب تھا۔آپ بیتی میں لکھتے ہیں ’’ گھر سے میں پیدل اورینٹل کالج جاتا۔ تب مال روڈ دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ صاف ستھری سڑک، ہرے بھرے درخت، پیادہ راہ کے ساتھ لمبی کیاریاں جن میں رنگ برنگے پھول کھلتے۔ وہاں جگہ جگہ چھوٹے تختے لگے تھے جن میں واضح اردو میں لکھا تھاـ: ازراہ نوازش سڑک پر چلیے،سبزے پر چلنا اور پھول توڑنا آپ جیسے با ذوق انسان کے لیے مناسب نہیں۔‘‘
’’میںمال روڈ کے مناظر سے لطف اندوز ہوتا نیلا گنبداور انار کلی کے چوراہے پار کرکے اورینٹل کالج پہنچ جاتا۔ اس وقت کالج میں دو طرح کا نظام تعلیم تھا۔ ایک تو مغربی جس کے تحت ایم ۔اے۔ اور پی ایچ ڈی کی ڈگری دی جاتی۔ دوسرا مشرقی جس کے تحت مولوی فاضل،منشی فاضل اور ادیب فاضل کی جماعتیں ہوتی تھیں۔یہ کالج دیکھنے میںچھوٹا سا تھا، لیکن تعلیمی اور تحقیقی روایت نے ساری دنیا میں اس کی عظمت کے جھنڈے گاڑ دیے۔‘‘
اورینٹل کالج میں دوران قیام عبادت صاحب نے بے شمار کتابیں لکھیں۔ان میں اردو تنقید کا ارتقا، غزل اور مطالعہ غزل میں ہیں۔چھے سو صفحات پر مشتمل شاعری کی کتاب بھی تحریرکی ۔اس کتاب کو یوں زیادہ شہرت ملی کہ پہلے جدید شاعری کا تنقیدی تجزیہ کسی نے نہیں لکھاتھا۔
اورینٹل کالج میں گیارہ سال گزارنے کے بعد عبادت صاحب’’لندن اسکول آف اورینٹل اینڈ افریکن اسٹیڈیز یونیورسٹی لندن‘‘ چلے گئے۔وہاں انھوں نے بی۔اے آنرز کے طلبہ کو پڑھایا۔ساتھ ساتھ پی ایچ ڈی کے کام کی نگرانی بھی کی ۔وہاں علمی و تحقیقی کام کے نئے میدان سامنے آئے۔انھوں نے وہاں چھے سال قیام کیا۔ اس دوران بے شمار فارسی و عربی مقالے اور نادر نسخے تلاش کر کے ان کی طباعت کی۔
۱۹۶۶ء میں وطن واپس آئے، تو پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر مقرر ہو ئے۔۱۹۷۰ء میں اورینٹل کالج کے پرنسپل بنائے گئے ۔آپ کے دورمیں پوری دنیا سے دانش ور اور پروفیسر کالج میں لیکچر دینے آتے۔یوں کالج نے بین الاقوامی شہرت حاصل کر لی۔ یوں اسے مشرقی اور اسلامی علوم کا اہم ادارہ سمجھا جانے لگا۔
عبادت صاحب نے عمر عزیز کے ۳۲ سال پنجاب یونیورسٹی اور اورینٹل کالج میں گزارے۔ایک مدرس کی حیثیت سے ہزارہا لیکچر دیے۔ بہ حیثیت ادیب ہزارہا صفحے لکھے۔ دہلی،لاہور، لندن اور ترکی میں بے شمار تحقیقی مقالوں کی نگرانی کی۔ ۱۴؍ اگست ۱۹۸۰ء کو مدت ملازمت ختم ہوئی۔آپ نے چالیس سالہ ملازمت کے دوران پروفیسر۔ صدرشعبہ، اورینٹل کالج کے پرنسپل ،اسلامک اور اورینٹل لرننگ کے ڈین اور تاریخ ادبیات مسلمانِ پاکستان وہند کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کیا ۔اس دوران ایک سو پچیس کتابیں تحریر کیں ۔سبکدوشی کے بعد مدت ملازمت میں توسیع ہوئی، تو دو سال کے لیے حکومت نے انھیں انقرہ ترکی بھیج دیا۔ انقرہ یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے پروفیسر کی کرسی خالی تھی۔عبادت صاحب نے وہاں بھی محنت اور لگن سے کام کیا ۔اردو کی اینڈر گریجوایٹ جماعت کے ساتھ ساتھ پوسٹ گریجوایٹ جماعتوں کا بھی اجرا کیا جہاں تحقیقی کام باقاعدگی سے ہونے لگا۔
قیام ترکی کی روداد عبادت صاحب نے ایک سفرنامے کی صورت لکھی ہے۔ جدید ترکیہ کے بارے میں یہ واحد کتاب ہے جس سے ترکی اور پاکستان کے دیرینہ تعلقات اور باہمی محبت آشکار ہوتی ہے۔ تین سال ترکی میں گزارنے کے بعد وہ فراغت کی زندگی بسر کرنے لگے۔یہ تو تھی عبادت صاحب کی تعلیمی جدوجہد ،اب کچھ ان کے ذاتی اخلاقی پہلوئوں پر نظر ڈالتے ہیں۔
میٹرک کرنے تک مجھے ان کے بارے میں کچھ معلوم نہ تھا ۔نہ تو ان سے رشتہ داری تھی اور نہ ہی ان کی کوئی تحریر پڑھی۔ لیکن جب کالج میں داخلہ لیا، تو اردو لازمی کے ساتھ ایڈوانس اردو بھی لے لی جس کی استاد بیگم عبادت تھیں۔ یوں ایڈوانس اردو میں عبادت صاحب کی تنقید اور جدید شاعری کو پڑھنے کا موقع ملا۔ اردو نوٹس میں جگہ جگہ ان کا حوالہ موجود تھا۔ اس وقت مجھے علم ہوا کہ ڈاکٹر عبادت بریلوی کا اردو میں بڑا مقام ہے۔ اور وہ اردو کے عظیم نقاد ہیں۔
زندگی نے پھر کروٹ لی اور بیگم عبادت کے شوہر میرے جیٹھ بن گئے۔ طالب علمی کے حسین دور سے نکل کر نئی زندگی کا تجربہ بڑا انوکھا تھا۔ اب پتا چلا کہ عملی زندگی صرف پھولوں کی سیج نہیں اس میں داخل ہونے کے لیے بڑی سمجھداری کی ضرورت ہوتی ہے۔ حالات کے تلخ و شیریں لمحات انسان پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ زمانے کی تندوتیز آندھی کبھی کبھی انسان کو اڑا کریہاں سے وہاں لے جاتی ہے۔ان حالات میں کوئی تو ہو جو تحمل سے، دوسروں کے لیے صحیح راہ کا تعین کر سکے۔عبادت بریلوی ایسے ہی انسان تھے۔
ہم سب انھیں ’’بھیا‘‘کہتے ۔میں نے بھی انھیں اپنا بھائی ہی سمجھا۔ انھوں نے بھی بھائی بن کر ہر موقع پر میری راہنمائی کی ۔ان کے لہجے کا دھیما پن ،انداز کی نرمی اور الفاظ کی چاشنی تھی جس نے مجھے ان کے قریب رکھا۔ بچوں کے کھانے پینے سے لے کر تعلیم،بیماری، دوست احباب، سماجی حالات اور معاشی پریشانی …غرض کہ وہ ہر بات کا خیال رکھتے۔ خاموش طبیعت کے تھے۔کہتے تھے، ہم زیادہ بات چیت نہیں کرتے، لیکن سب کے حالات سے باخبر رہتے ہیں۔جب کبھی ان سے بات کرنے کا موقع ملتا، تو اکثر اپنے حالات بھی بتاتے۔ پاکستان بننے کی داستان،اپنے بچپن کے قصے ،طالب علمی سے لے کر لندن تک کا حال۔
ان کے برآمدے کے ساتھ ہی میرا کمراواقع تھا۔ مجھے بارہا وہاں سے گزرنا پڑتا۔ وہ صبح صبح سیر کرکے آتے، تو برآمدے میں بیٹھ کر چائے پیتے اور اخبار پڑھتے۔شروع شروع میں جب انھوں نے کہا’’میں کسی سے زیادہ بات نہیں کرتا، لیکن ہر فرد کا جائزہ لیتا رہتا ہوں‘‘تویہ سن کر میں ڈر گئی ۔میں نے پوچھا’’مجھ سے کوئی غلطی ہوگئی ہے کیا؟‘‘
’’وہ مسکرا کے بولے’’نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔‘‘
دراصل وہ کہنا چاہتے تھے کہ انسان کی خاموشی اسے دوسروں سے غافل نہیں کرتی بلکہ اس کے اندر ٹھہرائو پیدا کر دیتی ہے۔ اس میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پیدا کرتی اور جینے کا سلیقہ سکھاتی ہے۔کاش یہ خوبی ہر انسان میں ہوتی! وہ روایات کے بھی بہت قائل تھے۔ یعنی جو رسم و رواج شروع سے چلے آرہے ہیں،انھیں ہمیشہ ویسے ہی دیکھنے کے خواہش مندرہتے۔ جیسے ان کے ہاں دس محرم کو چولھا نہیں جلتا تھا۔وہ اکثر کہتے ’’ میں تو روایات کا قائل ہوں، ان کو قائم رہنا چاہیے۔‘‘
ان میں جذباتی عنصر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ خاص طو پر انھیں پرانی چیزوں سے لگائو تھا۔مگر مجھے یہ بات عجیب سی لگتی۔ وہ کہتے ،درخت مت کاٹو،کچے پھل نہ توڑے جائیں۔کسی کیڑے اور جانور کو مت مارو ،فلاں چیز اپنی جگہ سے کیوں ہٹائی گئی؟
ان کا طرز عمل دیکھ کر میں سوچتی جس کوپرانی اشیا سے اتنی محبت اور روایات کا پاس ہے ، وہ انسانوں سے بھی بے لوث ہو گا۔ یہ تھی بھی حقیقت! وہ گھر اور باہربھی ہر شخص کا خیال رکھتے ۔کسی کو ملازمت کی تلاش ہے، پیسوں کی ضرورت ہے، یاکوئی پریشانی ہے اور مشورہ کرنا چاہتا ہے، بس وہ چٹکی بجاتے اور کام ہوجاتا،جیسے کوئی الہ دین کا چراغ اُن کے پاس ہو۔ زندگی کی کڑی دھوپ اور موسموں کی پرکھ ہو،زندگی کے نشیب و فراز یا آندھی کے تندوتیز جھکڑ ہوں ،ان سب سے بچ کر انھوں نے چلنے کا سلیقہ سکھایا،طریقہ بتایا ۔میں ان کی شکر گزار ہوں کہ میرے اندر ٹھہرائو انہی کی وجہ سے آیا۔
انسان زندگی کسی نہ کسی طرح سے گزار ہی لیتا ہے۔لیکن منزل تک پہنچنے سے قبل اسے اگر راہنمائی مل جائے، تو راہیں کہکشاں ہو جاتی ہیں۔ عبادت بریلوی لوگوں کے راہبر تھے اور راہنما بھی! قدرتی مناظر بھی ان کے لیے انمول خزانہ تھے۔ پھولوں کی مہک یا جگنو کی چمک ،چڑیوں کی چہک اور بارش کی رم جھم سے انھیں عشق تھا۔
اب وہ ہمارے درمیان موجود نہیں، لیکن ان کی تصو یر سب کے دل و دماغ میں سمائی ہوئی ہے۔عید ہو یا بقرعید ،خاندان کی کوئی شادی ہو یا گھریلوتقریب، وہ ہر جگہ قریب محسوس ہوتے ہیں…پان کھاتے، ٹہلتے اور مسکراتے ہوئے!
ان کی غیر موجودگی کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب وہ بات نہیں کرتے ۔تب دل چاہتا ہے، وہ بولیں، ہمارے مسائل کے حل بتائیں اور ہم نہ چاہتے ہوئے بھی ان پر عمل کریں۔ انھیں جو کچھ دینا تھا،وہ دے گئے۔ہمیں جو لینا تھا، ہم لے چکے۔ان کی یادیں ہماری ساتھی ہیں اور باتیں ہماری راہبر۔ کاش ایسے لوگوں کی ہماری قوم میں اکثریت ہوتی اور وہ ہمارے ملک کے لیے سرمایہ بن جائے۔ تب ہمارا پیارا وطن نفسانفسی اور قتل و غارت گری سے پاک ہوتا اور علم کا گہوارہ بن جاتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ خالد محمود