جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی
نام : محمد اختر صدیقی
تخلص : ساغر
ولادت : 1928ء انبالہ امرتسر متحدہ پنجاب ھند
وفات : 19 / جولائی 1974ء لاہور پاکستان
ساغر صدیقی (پیدائشی نام محمد اختر ) ایک اردو زبان کے پاکستانی شاعر تھے اصل خاندان ان کا انبالے سے تھا اور وہ پیدا بھی 1928ء میں انبالے میں ہوئے سال 1944ء کا تھا گھر میں ہر طرف افلاس اور نکبت کا دور دورہ تھا ایسے میں تعلیم کا کیا سوال ! محلے میں ایک بزرگ حبیب حسن رہتے تھے، انہیں کے پاس جانے آنے لگے جو کچھ پڑھا انہیں سے اس کے بعد شاید ورنیکلر مڈل کے کچھ درجے بھی پاس کر لیے ہوں ایک دن انہوں نے اس ماحول سے تنگ آکر امرتسر کی راہ لی اور یہاں ہال بازار میں ایک دکان دار کے ہاں ملازم ہو گئے جو لکڑی کی کنگھیاں بنا کر فروخت کیا کرتا تھا انہوں نے بھی یہ کام سیکھ لیا دن بھر کنگھیاں بناتے اور رات کو اسی دکان کے کسی گوشے میں پڑے رہتے لیکن شعر وہ اس 14، 15 برس کے عرصے میں ہی کہنے
لگے تھے اور اپنے بے تکلف دوستوں کی محفل میں سناتے بھی تھے شروع میں تخلص ناصر مجازی تھا لیکن جلد ہی اسے چھوڑ کر ساغر صدیقی ہو گئے ساغر کی اصل شہرت 1944ء میں ہوئی اس سال امرتسر میں ایک بڑے پیمانے پر مشاعرہ قرار پایا اس میں شرکت کے لیے لاہور کے بعض شاعر بھی مدعو تھے ان میں ایک صاحب کو معلوم ہوا کہ یہ “لڑکا” (ساغر صدیقی) بھی شعر کہتا ہے انہوں نے منتظمین سے کہہ کر اسے مشاعرے میں پڑھنے کا موقع دلوا دیا ساغر کی آواز میں بلا کا سوز تھا اور وہ ترنم میں پڑھنے میں جواب نہیں رکھتا تھا بس پھر کیا تھا، اس شب اس نے صحیح معنوں میں مشاعرہ لوٹ لیا قدرتا اس کے بعد امرتسر اور لاہور کے مشاعروں میں اس کی مانگ بڑھ گئی اب اس نے کنگھیاں بنانے کا کام چھوڑ دیا اور بعض سرپرست
احباب کی مدد سے اپنا علم اور صلاحیت بڑھانے کی کوشش
کی مشاعروں میں شرکت کے باعث اتنی یافت ہو جاتی تھی کہ اسے اپنا پیٹ پالنے کے لیے مزید تگ ودو کی ضرورت نہ رہی
گھر والے بے شک ناراض تھے کہ لڑکا آوارہ ہو گیا ہے اور کوئی کام نہیں کرتا لیکن اسے ان کی کیا پروا تھی ، اس نے گھر آنا
جانا ہی چھوڑ دیا کلام پر اصلاح لینے کے لیے لطیف انور گورداسپوری مرحوم کا انتخاب کیا اور ان سے بہت فیض اٹھایا 1947ء میں پاکستان بنا تو وہ امرتسر سے لاہور چلا گیا یہاں دوستوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا اس کا کلام مختلف پرچوں میں چھپنے لگا سینما فلم بنانے والوں نے اسے گیتوں کی فرمائش کی اور اسے حیرتناک کامیابی ہوئی اس دور کی متعدد فلموں کے گیت ساغر کے لکھے ہوئے ہیں اس زمانے میں اس کے سب سے بڑے سرپرست انور کمال پاشا (ابن حکیم احمد شجاع مرحوم) تھے جو پاکستان میں فلم سازی کی صنعت کے بانیوں میں ہیں انہوں نے اپنی بیشتر فلموں کے گانے ساحر سے لکھوائے اور یہ بہت مقبول ہوئے,1947ء سے 1952ء تک ساغر کی زندگی کا زرّیں دور کہا جا سکتا ہے وہ لاہور کے کئی روزانہ اور ہفتہ وار پرچوں سے منسلک ہو گیا، بلکہ بعض جریدے تو اسی کی ادارت میں شائع ہوتے رہے لیکن اس کے بعد شامت اعمال سے حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ وہ کہیں کا نہ رہا اور اخیر میں صحیح معنوں میں مرقّع عبرت بن گیا 1952ء کی بات ہے کہ وہ ایک ادبی ماہنامے کے دفتر میں بیٹھے تھے انہوں نے سردرد اور اضمحلال کی شکایت کی پاس ہی ایک اور شاعر دوست بھی بیٹھے انہوں نے تعلق خاطر کا اظہار کیا اور اخلاص ہمدردی میں انہیں مارفیا کا ٹیکہ لگا دیا سردرد اور اضمحلال تو دور ہو گیا لیکن اس معمولی واقعے نے ان کے جسم کے اندر نشّہ بازی کے تناور درخت کا بیج بو دیا ، ان کے کچھ دوستوں کی صحبت میں ساغر بھی رفتہ رفتہ اولا بھنگ اور شراب اور ان سے گزر کر افیون اور چرس کے عادی ہو گئے اگر کوئی راہ راست سے بھٹک جائے اور توفیق ایزدی اس کی دستگیری نہ کرے ، تو پھر اس کا تحت الثری سے ادھر کوئی ٹھکانہ نہیں رہتا یہی ساغر کے ساتھ ہوا اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ خود ان کے دوستوں میں سے بیشتر نے ان کے ساتھ ظلم کیا یہ لوگ انہیں چرس کی پڑیا اور مارفیا کے ٹیکے کی شیشیاں دیتے اور ان سے غزلیں اور گیت لے جاتے ، اپنے نام سے پڑھتے اور چھپواتے اور بحیثیت شاعر اور گیت کار اپنی شہرت میں اضافہ کرتے اس کے بعد اس نے رسائل اور جرائد کے دفتر اور فلموں کے اسٹوڈیو آنا جانا چھوڑ دیا اس
میں بھی کوئی مبالغہ نہیں کہ اداروں کے کرتا دھرتا اس کے کام کی اجرت کے دس روپے بھی اس وقت ادا نہیں کرتے تھے ،
جب وہ ان کے در دولت کی چوکھٹ پر دس سجدے نہ کرے
اس نے ساغر کے مزاج کی تلخی اور دنیا بیزاری اور ہر وقت
“بے خود” رہنے کی خواہش میں اضافہ کیا اور بالکل آوارہ ہوگیا نوبت بايں رسید کہ کہ کبھی وہ ننگ دھڑنگ ایک ہی میلی کچیلی چادر اوڑھے اور کبھی چیتھڑوں میں ملبوس، بال بکھرائے ننگے پاوں منہ میں بیڑی یا سگریٹ لیے سڑکوں پر
پھرتا رہتا اور رات کو نشے میں دھت مدہوش کہیں کسی سڑک کے کنارے کسی دکان کے تھڑے یا تخت کے اوپر یا نیچے پڑا رہتا اب اس کی یہ عادت ہو گئی کہ کہیں کوئی اچھے وقتوں کا دوست مل جاتا تو اس سے ایک چونی طلب کرتا اس کی یہ چونی مانگنے کی عادت سب کو معلوم تھی چنانچہ بار بار ایسا ہوا کہ کسی دوست نے اسے سامنے سے آتے دیکھا اور فورا جیب سے چونّی نکال کر ہاتھ میں لے لی پاس پہنچے اور علیک سلیک کے بعد مصافحہ کرتے وقت چونی ساغر کے ہاتھ میں چھوڑ دی وہ باغ باغ ہو جاتا یوں شام تک جو دس بیس روپے جمع ہو جاتے، وہ اس دن کے چرس اور مارفیا کے کام آتے فاعتبروا یا اولی الابصار جنوری1974ء میں اس پر فالج کا حملہ ہوا اس کا علاج بھی چرس اور مارفیا سے کیا گیا فالج سے تو بہت حد تک نجات مل گئی، لیکن اس سے دایاں ہاتھ ہمیشہ کے لیے بے کار ہو گیا پھر کچھ دن بعد منہ سے خون آنے لگا اور یہ آخر تک دوسرے تیسرے جاری رہا ان دنوں خوراک برائے نام تھی جسم سوکھ کر ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گیا تھا سب کو معلوم تھا کہ اب وہ دن دور نہیں جب وہ کسی سے چونی نہیں مانگے گا چنانچہ 19 جولائی 1974ء صبح کے وقت اس کی لاش سڑک کے کنارے ملی اور دوستوں نے لے جا کر اسے میانی صاحب کے قبرستان میں دفن کر دیا ساغر نے غزل ، نظم، قطعہ، رباعی، ہر صنف سخن میں خاصا ذخیرہ چھوڑا ہے وہ خود تو اسے کیا چھپواتا، ناشروں نے اپنے نفع کی خاطر اسے چھاپ لیا اور اسے معاوضے میں ایک حبّہ تک نہ دیا چھ مجموعے اس کی زندگی میں لاہور سے چھپے غم بہار، زہر آرزو (1946ء)، لوح جنوں (]1971ء) اور سبز گنبد اور شب آگئی (1972ء) یقین ہے کہ اگر کوشش کی جائے تو ایک اور مجموعے کا مواد بآسانی مہیّا ہو سکتا ہے ساغر کا کلام بہت جاندار ہے اور زندہ رہنے کا مستحق ایک واقعہ جو ان کے بارے میں مشہور ہیے ,اکتوبر 1958ء میں پاکستان میں فوجی انقلاب میں محمد ایوب (ف: اپریل 1974ء) بر سر اقتدار آگئے ساغر نے
ان کے تعاریفی جذبے کا اظہار میں ایک نظم میں لکھی ،
اس میں ایک مصرع تھا ؛ 👇
“کیا ہے صبر جو ہم نے، ہمیں ایوب ملا”
یہ نظم جرنیل محمد ایوب کی نظر سے گزری یا گزاری گئی اس کے بعد جب وہ لاہور آئے تو انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ میں اس شاعر سے ملنا چاہتا ہوں جس نے یہ نظم لکھی تھی اب کیا تھا ! نفاذ قانون کے ادارے (پاکستان) اور خفیہ پولیس اور نوکر شاہی کا پورا عملہ حرکت میں آگیا اور ساغر کی تلاش ہونے لگی لیکن صبح سے شام تک کی پوری کوشش کے باوجود وہ ہاتھ نہ لگا اس کا کوئی ٹھور ٹھکانہ تو تھا نہیں، جہاں سے وہ اسے پکڑ لاتے پوچھ گچھ کرتے کرتے سر شام پولیس نے اسے پان والے کی دکان کے سامنے کھڑے دیکھ لیا وہ پان والے سے کہہ رہا تھا کہ پان میں قوام ذرا زیادہ ڈالنا پولیس افسر کی باچھیں کھل گئیں کہ شکر ہے ظلّ سبحانی کے حکم کی تعمیل ہو گئی انہوں نے قریب جا کر ساغر سے کہا کہ آپ کو حضور صدر مملکت نے یاد فرمایا ہے ساغر نے کہا بابا ہم فقیروں کا صدر سے کیا کام !
افسر نے اصرار کیا ،ساغر نے انکار کی رٹ نہ چھوڑی افسر بے چارا پریشان کرے تو کیا کیونکہ وہ ساغر کو گرفتار کرکے تو لے نہیں جا سکتا تھا کہ اس نے کوئی جرم نہیں کیا تھا اور اسے کوئی ایسی ہدایت بھی نہیں ملی تھی ،جرنیل صاحب تو
محض اس سے ملنے کے خواہش مند تھے اور ادھر یہ “پگلا
شاعر” یہ عزت افزائی قبول کرنے کو تیار نہیں تھا اب افسر
نے جو مسلسل خوشامد سے کام لیا، تو ساغر نے زچ ہو کر
اس سے کہا 👇
“ارے صاحب، مجھے گورنر ہاؤس میں جانے کی ضرورت نہیں
وہ مجھے کیا دیں گے دو سو چار سو، فقیروں کی قیمت اس
سے زیادہ ہے” جب وہ اس پر بھی نہ ٹلا تو ساغر نے گلوری کلے میں دبائی اور زمین پر پڑی سگرٹ کی خالی ڈبیا اٹھا کر اسے کھولا جس سے اس کا اندر کا حصہ نمایاں ہوگیا اتنے میں یہ تماشا دیکھنے کو ارد گرد خاصی بھیڑ جمع ہو گئی تھی ساغر
نے کسی سے قلم مانگا اور اس کاغذ کے ٹکڑے پر یہ شعر لکھا 👇
جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی
ساغر صدیقی بقلم خود
اور وہ پولیس افسر کی طرف بڑھا کر کہا یہ صدر صاحب کو دے دینا، وہ سمجھ جائیں گے اور اپنی راہ چلا گیا ساغرؔ کی غزلوں کے مجموعے 👇
زہر الود ۔.1960ء، غم بہار۔۔ 1964ء، لوح جنوں ۔1970ء ,
شیشہ دل اور شب آ گہی۔۔1972ء، مقتل گل۔۔1974ء ، دیوان ساغر صدیقی اور کلیات ساغر صدیقی , انہوں نے 1965ء اور 1971ء میں پاک بھارت جنگوں میں بھی بہت سے ترانے لکھے نعتیں بھی کہیں جو “سبز گنبد” کے نام سے مجوعے کی صورت میں طبع ہوئیں نعتوں میں آپ کی یہ نعت شریف بہت مقبول ہوئی ,بزم کونین سجانے کے لۓ آپ آۓﷺ , 35 کے قریب گیت فلموں کے لۓ لکھے جن کی موسیقی رشید عطرے مرحوم اور غلام حیدر مرحوم نے ترتیب دی ,
💟 تحریر و پیشکش :- سید نوید جعفری حیدرآباد دکن 💟
💖 محترم ساغر صدیقی صاحب کے 48 ویں یوم وفات پر آپ کامنتخب کلام بطور خراج عقیدت قارا ئین کی نظر ہیے 💖
#نعت_شریف
بزمِ کونین سجانے کے لیے آپ ﷺ آئے
شمعِ توحید جلانے کے لیے آپ ﷺ آئے
ایک پیغام ، جو ہو دل میں اُجالا کردے
ساری دُنیا کو سُنانے کے لیے آپ ﷺ آئے
ایک مدّت سے بھٹکتے ہوئے انسانوں کو
ایک مرکز پہ بلانے کے لیے آپ ﷺ آئے
ناخدا بن کے اُبلتے ہوئے طوفانوں میں
کشتیاں پار لگانے کے لیے آپ ﷺ آئے
قافلہ والے بھٹک جائیں نہ منزل سے کہیں
دُور تک راہ دکھانے کے لیے آپ ﷺ آئے
چشمِ بید کو اسرارِ خدائی بخشے
سونے والوں کو جگانے کے لیے آپ ﷺ آئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھول کی پنکھڑی سرراہے
بوند اک خون کی سرراہے
منزل آرزو کہاں آئی
آنکھ ان سے لڑی سرراہے
آپ گذرے کہ جوۓ مے گذری
مٹ گئی تشنگی سرراہے
جانے پتھر کدھر سے آیا
چوٹ دل پر لگی سرراہے
اے سمن بار کھڑکیوں والے
جھانک لینا کبھی سر راہے
بن گئی آج حسرتیں ساغرؔ
مجمعء بے کسی سرراہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جام و مینا ایاغ ہوتی ہے
ہرکلی باغ باغ ہوتی ہے
آپ کے انتظار کی دنیا!
لامکاں کا سراغ ہوتی ہے
ایک درویش کی نصیحت بھی
راستے کا چراغ ہوتی ہے
اہل وحشت کی زندگی ساغرؔ
کتنی عالی دماغ ہوتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترے غم کی تلاوت کر رہے ہیں
ستاروں سے شکایت کر رہے ہیں
جنوں کے تجربوں کی نگہداری
بہ انداز فراست کر رہے ہیں
ترے شانوں پہ تابندہ نشاطے
بہاروں کی سخاوت کر رہے ہیں
نہ دے تہمت ہمیں مدہوشیوں کی
ذرا پی کر عبادت کر رہے ہیں
سحر کے بعد بھی شمعیں جلاؤ!
کہ پروانے شرارت کر رہے ہیں
خداوندان گلشن!یہ شگوفے
بہاروں سے بغاوت کر رہے ہیں
مرتب غم کے افسانوں کو ساغرؔ
بہ انداز حکایت کر رہے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پریشان عکس ہستی،آئینہ بے نور دیکھا ہے
مری آنکھوں نے افسردہ چراغ طور دیکھا ہے
سرور و کیف کا معیار اپنی ذات ہے ساقی
شراب درد سے ہر جام کو معمور دیکھا ہے
بڑی مدت سے آشفتہ امیدیں یاد کرتی ہیں
کہیں اس بزم میں یارو دل مجبور دیکھا ہے
یہ دستور وفا صدیوں سے رائج ہے زمانے میں
صداۓ قرب دی جن کو انہی کو دور دیکھا ہے
کہیں لخت جگر کھانے سے ساغرؔ بھوک مٹتی ہے
لہو کے گھونٹ پی کر بھی کوئی مخمور دیکھا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بزرگوں کی دعائیں مل رہی ہیں
محبت کو سزائیں مل رہی ہیں
فروزاں ہیں تمھارے غم کے دیپک
بڑی روشن فضائیں مل رہی ہیں
حسیں گیسو ہیں شانوں پر پریشاں
گلے ان سے گھٹائیں مل رہی ہیں
شعور بزم تک جن کو نہیں ہے
انھیں رنگیں ادائیں مل رہی ہیں
ترا آنچل ہوا میں اڑ رہا ہے
ترانوں کو نوائیں مل رہی ہیں
چلو بادہ کشوں میں تیرہ بختو!
ستاروں کو ضیائیں مل رہی ہیں
قفاؤں کا صلہ ساغر وطن میں
بہت ارزاں جفائیں مل رہی ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امید کے موتی ارزاں ہیں درویش کی جھولی خالی ہے
پھولوں سے مہکتے داماں میں درویش کی جھولی خالی ہے
احساس صفاتی پتھر ہے ، ایماں سلگتی دھونی ہے !
بے رنگ مزاج دوراں ہیں ، درویش کی جھولی خالی ہے
بے نور مروت کی آنکھیں بے کیف عنایت کے جذبے
ہر سمت بدلتے عنواں ہیں درویش کی جھولی خالی ہے
گدڑی کے پھٹے ٹکڑے ساغرؔ اجسام تخیل کیا ڈھانپیں
فریاد کے نقطے حیراں ہیں درویش کی جھولی خالی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیرے جوڑے کے پھول مرجھاۓ
عشق کی بندگی کے کام آۓ
صبح تیرے جلو میں روشن ہے
میرے ہمراہ شام کے ساۓ
بے صدا ہے ترانہء منصور
عقدہء دار کون سلجھاۓ
روشنی تھی تو دور تھے احباب
اب اندھیروں میں ڈھونڈنے آۓ
موت کی گونجتی ہواؤں میں
بارہا نغمے موت کے گاۓ
اس درندوں کی بھیڑ میں ساغرؔ
کاش انسان کوئی کہلاۓ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تن سلگتا ہے من سلگتا ہے
جب بہاروں میں من سلگتا ہے
نوجوانی عجیب نشہ ہے
چھاؤں میں بھی بدن سلگتا ہے
جب وہ محو خرام ہوتے ہیں
انگ سرو سمن سلگتا ہے
جانے کیوں چاندنی میں پچھلے رات
چپکے چپکے چمن سلگتا ہے
تیرے سوزِ سخن سے اے ساغر
زندگی کا چلن سلگتا ہے
رُودادِ محبّت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کچھ بھول گئے
دو دِن کی مُسرّت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گئے
جب جام دیا تھا ساقی نے جب دور چلا تھا محفل میں
اِک ہوش کی ساعت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گیے
اب وقت کے نازک ہونٹوں پر مجروح ترنّم رقصاں ہے
بیدادِ مشیّت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بُھول گئے
احساس کے میخانے میں کہاں اَب فکر و نظر کی قندیلیں
آلام کی شِدّت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گئے
کُچھ حال کے اندھے ساتھی تھے کُچھ ماضی کے عیّار سجن
احباب کی چاہت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گئے
کانٹوں سے بھرا ہے دامنِ دِل شبنم سے سُلگتی ہیں پلکیں
پُھولوں کی سخاوت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گئے
اب اپنی حقیقت بھی ساغرؔ بے ربط کہانی لگتی ہے
دُنیا کی کی حقیقت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گئے