آج – 30؍مارچ 1953
دارالسرور برہان پور کے نعتیہ اور ممتاز بزرگ شاعر” جناب ہارون ایازؔ قادری صاحب “ کا یومِ ولادت…
نام محمّد ہارون، تخلص ایازؔ ہے۔ وہ ٣٠؍مارچ ١٩٥٣ء کو دارالسرور برہان پور، مدھیہ پردیش ( بھارت) میں پیدا ہوئے ۔ والد کا نام حفیظ اللہ انصاری ہے۔ کم عمری میں والد صاحب داغِ مفارقت دے گئے۔ بچپن ہی سے شعر و ادب سے دلچسپی رہی اور میٹرک تک ہی تعلیم حاصل کی اور روزگار کے لئے آبا و اجداد کا پیشہ پارچہ بافی صنعت سے وابستہ ہو گئے۔
ہارون ایاز قادری کے دو نعتیہ مجموعے شائع ہو چکے ہیں نیز غزلیات پر مشتمل شعری مجموعہ زیرِ تکمیل ہے۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
ممتاز شاعر ہارون ایازؔ کے یوم ولادت پر منتخب کلام بطور خراجِ تحسین…
آپ کے سامنے آواز نکلتی ہی نہیں
بے زبانی مری انداز بدلتی ہی نہیں
منتظر ہیں مری پلکوں کے ستارے کب سے
چاندنی ان کے دریچے سے نکلتی ہی نہیں
بھوک کا لطف امیروں کے مقدر میں کہاں
یہ حسینہ کبھی قالین پہ چلتی ہی نہیں
اک حقیقت ھے جو افسانہ ہوئی جاتی ھے
لڑکھڑاتی ہوئی تہذیب سنبھلتی ہی نہیں
دیکھئے ظلم کی ٹہنی تو ثمربار ہوئی
آپ تو کہتے تھے یہ پھولتی پھلتی ہی نہیں
لیجئے اب میں چراغ اپنا بجھا لیتا ہوں
اب ہوا میرے مخالف کہیں چلتی ہی نہیں
تیرے افکار میں وہ درد کی لذت نہ رہی
تیرے نغمات پہ اب روح مچلتی ہی نہیں
اے ایازؔ اب ترے افکار سے ندرت روٹھی
اب تری فکر ۔غزل پارے ۔اگلتی ہی نہیں
●━─┄━─┄═••═┄─━─━━●
کچھ رنگ عشق اپنے جنوں میں مزید بھر
کب تک یہ رابطے یونہی گفت و شنید بھر
یہ بھی بہت ھے نام ہمارا بھی آگیا
قیمت ہمارے پاس کہاں تھی خرید بھر
بیرنگیوں سے اوب گیا خاکۂ حیات
تزئین کار کچھ تو سیاہ و سپید بھر
آرائشِ لباس میں مصروف کائنات
لیکن وہ ایک شخص جو رویا تھا عید بھر
چیونٹی نے سر کیا ھے سر کوہسار کو
مایوسیوں کی مانگ میں رنگِ امید بھر
بازو میں زور فاتح خیبر سمیٹ لے
سینے میں اپنے جذبۂ ابن ولید بھر
جس پر لکھی ہوئی ھے مری داستاں ایازؔ
اس آئینے کو دیکھ نہ پاوگے دید بھر
✧◉➻══════════════➻◉✧
بنامِ عشق ترا غم شناس رہتے ہوئے
میں مطمئن بھی بہت ہوں اداس رہتے ہوئے
کبھی تو کھل کے ملو اور ٹوٹ کر برسو
ہو کتنی دور مرے آس پاس رہتے ہوئے
وہ راز مجھ پہ مری بیخودی نے کھول دیا
جو جان پایا نہ ہوش وحواس رہتے ہوئے
یہ انتظار مجھے کیوں گراں گزرتا ھے
رفیقِ جاں ترے ملنے کی آس رہتے ہوئے
دمک رھی ھے جوانی چمک رھا ھے شباب
برہنگی ھے یہ کیسی لباس رہتے ہوئے
ایازؔ میرے لئے حسنِ آگہی تھا بہت
خدا شناس رہا خود شناس رہتے ہوئے
◆ ▬▬▬▬▬▬ ✪ ▬▬▬▬▬▬ ◆
منظر کوئی نظروں میں خیالی بھی نہیں ہے
تتلی بھی نہیں ھے کوئی ڈالی بھی نہیں ہے
اس آنکھ پہ قربان مری ساری وفائیں
جو آنکھ مجھے دیکھنے والی بھی نہیں ہے
کیا مجھ سے خطا ہوگئی اے رازقِ یکتا
دروازے پہ اب کوئی سوالی بھی نہیں ہے
لگتا تو یہی ھے کہ مداوہ نہ کریں گے
زخموں پہ نظر آپ نے ڈالی بھی نہیں ھے
کیا بات ھے سناٹا ھے کیوں بزمِ سخن میں
واہ واہ نہیں ھے کوئی تالی بھی نہیں ہے
اربابِ سخن داد اگر دیں تو نوازش
ویسے مری تخلیق مثالی بھی نہیں ھے
کہہ لیتے ہیں اشعار ایازؔ اتنا ہی بس ہے
یوں تو یہ کوئی منصبِ عالی بھی نہیں ہے
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
ہارون ایازؔ قادری
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ