آج پاکستان کے نامور ادیب، شاعر، مصور، خطاط، دانشور اور سیاستدان حنیف رامے کا یومِ وفات ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کے نامور ادیب، شاعر، مصور، خطاط، دانشور اور سیاستدان حنیف رامے کی تاریخ پیدائش 15 مارچ 1930ء ہے۔
حنیف رامے تحصیل ننکانہ صاحب ضلع شیخوپورہ میں پیدا ہوئے تھے۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے ماسٹرز کرنے کے بعد وہ اپنے خاندانی کاروبار نشر و اشاعت سے منسلک ہوگئے، اسی دوران انہوں نے اپنی مصوری کا بھی آغاز کیا اور اردو کے مشہور جریدے سویرا کی ادارت کے فرائض سنبھالے۔ بعدازاں انہوں نے ایک سیاسی اور ادبی جریدہ نصرت جاری کیا۔1960ء میں انہوں نے پاکستان مسلم لیگ سے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا۔1967ء میں جب ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان پیپلزپارٹی قائم کی تو وہ نہ صرف اس کے بنیادی ارکان میں شامل ہوئے بلکہ انہوں نے اس پارٹی کے منشور اور پروگرام کی تیاری اور ترویج میں بھی بڑا فعال کردار ادا کیا اوراپنے جریدے نصرت کو سیاسی ہفت روزہ میں تبدیل کرکے اسے پارٹی کا ترجمان بنادیا۔ جولائی 1970ء میں انہوں نے روزنامہ مساوات جاری کیا۔ ان انتخابات میں حنیف رامے بھی پاکستان پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر لاہور سے پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1972ء میں وہ پنجاب کے وزیر خزانہ کے عہدے پر فائز ہوئے اور 1974ء میں وہ پنجاب کے وزیراعلیٰ بنے۔ 1976ء میں وہ بعض اختلافات کی وجہ سے پاکستان پیپلزپارٹی چھوڑ کر مسلم لیگ (پگاڑا گروپ) میں شامل ہوگئے۔ 1977ء میں انہوں نے اپنی سیاسی جماعت مساوات پارٹی کے نام سے تشکیل دی۔ 1988ء میں وہ دوبارہ پیپلزپارٹی میں شامل ہوئے اور 1993ء میں پنجاب اسمبلی کے اسپیکر کے منصب پر فائز ہوئے۔
اس دوران حنیف رامے کے تخلیقی کاموں کا سلسلہ بھی جاری رہا۔انہوں نے کئی کتابیں تحریر کیں جن میں پنجاب کا مقدمہ، اسلام کی روحانی قدریں: موت نہیں زندگی اور نظموں کا مجموعہ دن کا پھول کے نام سرفہرست ہیں۔ وہ ایک اچھے مصور ہونے کے ساتھ ساتھ مصورانہ خطاطی کے ایک نئے دبستان کے بانی بھی تسلیم کئے جاتے ہیں۔
یکم جنوری 2006ء کو حنیف رامے لاہور میں وفات پاگئے اور لاہور ہی میں قبرستان ڈیفنس میں آسودۂ خاک ہوئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منتخب نظمیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گریباں
میں نے گلاب کے پودے سے پوچھا
آج کل تم پر پھول کم اور کانٹے زیادہ آ رہے ہیں
کہنے لگا میں تمھارا بے دام غلام ہوں
ان دنوں تم دشمنی کے کانٹے بونے میں مصروف ہو
تمھیں کانٹوں کی ضرورت ہے
جس روز تم دوستی کے سفر پر نکلو گے
دیکھنا میں کیسے پھولوں کے انبار لگا دوں گا
میں نے فاختہ سے کہا
دنیا میں ہر طرف بد امنی پھیلی ہے
وہ تمھاری شاخ زیتون وہ شاخ امن کہاں گئی
بولی میں نے تو لا کر تمھارے ہاتھ میں دے دی تھی
تمہی کہیں رکھ کر بھول گۓ ہو
دیکھو شاید تمھاری بندوق کی نالی میں نہ پڑی ہو
میں نے تاروں بھرے آسمان کی طرف حسرت سے دیکھا
انسان کے دن کب پھریں گے
یہ قتل و غارت یہ خون خرابہ کب ختم ہو گا
یہ زیر دستوں کا صبر یہ زبردستوں کا جبر
یہ لوٹ اور جھوٹ آخر ہمارے نصیب میں کیوں لکھ دیۓ گۓ
ایک ستارہ ٹوٹا
اور میرے دل کے تختہء سیاہ پر رقم کر گیا
" جھانک لو اپنے گریباں میں"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مشق
برسوں بعد بر نوک زبان ہے کوئی شعر
پھر ایک دن
اس کے جانے پہچانے ہزار مرتبہ رہراۓ ہوۓ الفاظ کے اندر
کھل جاتا ہے معانہ کا ایک نیا دروازہ
اور رہ جاتے ہیں ہم ہکا بکا
جس مفہوم پر سر دھنتے آۓ تھے کل کتنا سطحی کتنا ادھورا تھا وہ
شکر کرتے ہیں کہ نہیں پوچھ لیا کسی نے ہم سے اس شعر کا مطلب
ستیہ ناس کر ڈالتے اچھے بھلے شعر کا ان نۓ معانی کے بغیر ہم
یہی کچھ ہوتا ہے زندگی میں پیش آنے والے
واقعات و حادثات کے ساتھ بھی
جو کچھ بیت گیا اور بیت رہا ہے ہم پر
دیر تک راز ہی نہیں کھلتا اس کی اہمیت کا
بے مقصد ہو رہا ہے یہ سب کچھ
یا اس کا ہمارے مستقبل اور مقدر سے بھی تعلق ہے کچھ
پھر پردہ سا ہٹتا ہے اور ہو جاتے ہیں ہم غرق حیرت
کتنا محدود تھا ہمارا نقد علم
اور کن مغالطوں میں پڑے ہوۓ تھے ہم
مجھے تو خوگر سا بنا دیا ہے روزمرہ کی اس حیرانی و پریشانی نے
نۓ سے نیا صدمہ سہنے کو تیار رہتا ہوں صبح و شام
اپنی جہالت کے انکشاف پر
ونڈے کرکٹ تو شوق سے دیکھتے ہیں آپ بھی
یوں سمجھیۓ کہ مشق تھا گزشتہ کل کا میچ آج کے میچ کی
مشق ہے آج کا میچ آنے والا کل کے لیے
اور کل جو میچ ہو گا اپنی جگہ وہ فائنل ہی کیوں نہ ہو
مشق ہو گا پرسوں کے میچ کی
ہڈیاں گل گئیں اتنی سادہ سی بات سمجھتے سمجھتے
کہ ہر دن طلوع ہوتا ہے اپنے ساتھ ایک نیا سوال ایک نیا چیلنج لے کر
اور مطالبہ کرتا ہے ہم سے ایک نۓ جواب ایک نۓ طرز عمل کا
نہ تو زندگی ہی جامد ہے نہ زندگی کا خالق خدا
زندگی بہتے دریا کی طرح بدلتی رہتی ہے ہر لحظہ قائم و دائم رہتے ہوۓ
اور نت نئی تخلیق میں مصروف خدا بھی نہیں ہوتا کبھی پہلے والا خدا
جب زندگی اور اس کے خالق ہی کی کایا کلپ ہوتی رہتی ہے یوں
تو اشعار ہوں یا واقعات و حادثات بدل جاتا ہے ہر شے کا مفہوم
بھئی، بدل جاتے ہیں ہم خود بدل جاتی ہے ہماری نظر ہمارا احساس
بدل جاتی ہیں وہ محبتیں
جن کے ازلی و ابدی ہونے کی قسمیں کھایا کرتے تھے ہم
بدل جاتی ہیں بے بدل دوستیاں
وہ خواہشیں بدل جاتی ہیں جنہوں نے
ایک عمر پاگل بناۓ رکھا ہوتا ہے ہمیں
اور تو اور بدل جاتے ہیں دین اور ایمان
راستے ہی نہیں بدل جاتی ہیں منزلیں
سن رہے ہیں آپ
بھر تو نہیں پاۓ آب بھی؟
کدھر چل دیے آپ؟
بدل تو نہیں گۓ آپ بھی؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔