آج – 3؍مارچ 1982
بیسویں صدی کے اردو زبان کے صفِ اول کے شعرا میں شمار، ممتاز ترین قبل از جدید شاعروں میں نمایاں، اپنے بصیرت افروز تنقیدی تبصروں کے لئے مشہور شاعر” فراقؔ گورکھپوری صاحب “ کی برسی…
نام رگھوپتی سہائے، تخلص فراقؔ، 28؍اگست 1896ء کو گورکھپور (اترپردیش) میں پیدا ہوئے۔ گھر میں شعرو شاعری کا چرچا عام تھا۔ ان کے والد منشی گورکھ پرشاد عبرتؔ بھی مشہور شاعر تھے ۔فراق نے تعلیم آلہ آباد میں حاصل کی اور اردو اور فارسی کے علاوہ انگریزی میں بھی اعلی لیاقت حاصل کی۔ بعد میں انڈین نیشنل کانگریس میں شامل ہوگئے۔ کچھ مدت تک جواہر لعل نہرو کے ساتھ کام کیا۔ جیل بھی گئے۔انگریزی میں ایم۔ اے کرنے کے بعد الہ آباد یونیورسٹی میں انگریزی کے استاد ہوگئے ۔یہیں سے 1959میں ریٹائر ہوئے۔ فراق گورکھپوری کے کلام کے کئی مجموعے شائع ہوئے۔ ان میں ’’روحِ کائنات‘‘ ،’’رمز و کنایات‘‘،’’غزلستان‘‘، ’’شبنمستان‘‘ اور ’’گلِ نغمہ‘‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ’’اندازے‘‘ اور ان کی کتاب ’’اردو کی عشقیہ شاعری‘‘ بہت اہمیت رکھتی ہے ۔ شاعری میں فراقؔ کی غزل اور ان کی رباعی کاانداز سب سے الگ ہے ۔ انہوں نے رباعی کی صنف کو ہندوستانی ثقافت کا ترجمان بنادیا۔
3؍مارچ 1982ء کو فراقؔ گورکھپوری انتقال کر گئے۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦••••••••••••✦❁✦••••••••••••✦
معروف شاعر فراقؔ گورکھپوری کی برسی پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…
آج بھی قافلۂ عشق رواں ہے کہ جو تھا
وہی میل اور وہی سنگ نشاں ہے کہ جو تھا
—–
ہے ترے کشف و کرامات کی دنیا قائل
تجھ سے اے دل نہ مگر کام ہمارا نکلا
—–
دیدار میں اک طرفہ دیدار نظر آیا
ہر بار چھپا کوئی ہر بار نظر آیا
—–
رفتہ رفتہ عشق کو تصویر غم کر ہی دیا
حسن بھی کتنا خراب گردشِ ایّام تھا
—–
طور تھا کعبہ تھا دل تھا جلوہ زار یار تھا
عشق سب کچھ تھا مگر پھر عالمِ اسرار تھا
—–
حسن کافر سے کسی کی نہ گئی پیش فراقؔ
شکوہ یاروں کا نہ شکرانۂ اغیار چلا
—–
تری نگاہ کی صبحیں نگاہ کی شامیں
حریمِ راز یہ دنیا جہاں نہ دن ہیں نہ رات
—–
پھر وہی رنگِ تکلّم نگۂ ناز میں ہے
وہی انداز وہی حُسنِ بیاں ہے کہ جو تھا
—–
ہر جنبشِ نگاہ میں صد کیف بے خودی
بھرتی پھرے گی حسن کی نیت کہاں کہاں
—–
نگاہِ ناز نے پردے اٹھائے ہیں کیا کیا
حجاب اہل محبت کو آئے ہیں کیا کیا
—–
چھلک کے کم نہ ہو ایسی کوئی شراب نہیں
نگاہ نرگسِ رعنا ترا جواب نہیں
—–
شامِ غم کچھ اس نگاہِ ناز کی باتیں کرو
بے خودی بڑھتی چلی ہے راز کی باتیں کرو
—–
کیوں انتہائے ہوش کو کہتے ہیں بے خودی
خورشید ہی کی آخری منزل تو رات ہے
—–
شریک شرم و حیا کچھ ہے بد گمانیٔ حسن
نظر اٹھا یہ جھجک سی نکل تو سکتی ہے
—–
کوئی پیغامِ محبت لبِ اعجاز تو دے
موت کی آنکھ بھی کھل جائے گی آواز تو دے
—–
مجھ کو تو غم نے فرصتِ غم بھی نہ دی فراقؔ
دے فرصتِ حیات نہ جیسے غمِ حیات
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
فراقؔ گورکھپوری
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ