فراق گورکھپوری 28 اگست 1896ء کو گورکھپور میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام رگھوپتی سہائے تھا۔ ان کے والد منشی گورکھ پرشاد عبرت اردو اور فارسی کے عالم، ماہر قانون اور اچھے شاعر تھے۔ فراق گورکھپوری نے انگریزی زبان میں ایم اے کرنے کے بعد سول سروس کا امتحان پاس کیا . 1919 میں ڈپٹی کلکٹر مقرر ہوئے۔ 1920 میں ملازمت ترک کرکے جدوجہد آزادی میں شامل ہوگئے۔ 1922 سے دسمبر 1926 تک کانگریس کے انڈر سیکریٹری رہے۔ 18 اگست 1931 کو الہ آباد یونیورسٹی میں انگریزی کے استاد مقرر ہوئے۔ 31 دسمبر 1958 کو ریٹائرمنٹ کے بعد نیشنل ریسرچ پروفیسر کا منصب دیا گیا۔ جس پر 1966 تک فائز رہے۔ فراق کو آل انڈیا ریڈیو نے بھی پروڈیوسر امریطس کا اعزاز دیا۔
فراق گورکھپوری اردو اور انگریزی ادب کا وسیع مطالعہ رکھتے تھے۔ وہ اردو کے ان شاعروں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے بیسویں صدی میں اردو غزل کو ایک نیا رنگ اور آہنگ عطا کیا۔حکومت ہند نے انہیں پدم بھوشن اور گیان پیٹھ کے اعزازات عطا کیے تھے۔ 3 مارچ 1982ء کو فراق گورکھپوری کا نئی دہلی میں انتقال ہوا۔ میت الہ آباد لے جائی گئی جہاں گنگا اور جمنا کے سنگم پر نذر آتش کیا گیا۔
شعری مجموعے
شعلۂ ساز، روح کائنات ، مشعل روپ ، رمز و کنایات ، گل نغمہ ،شبنمستان ، غزلستان ، نغمہ نما ، ہزارداستان ، شعرستان ، دھرتی کی کروٹ ، چراغاں، گلبانگ ، پچھلی رات
نثری تصانیف
اردو کی عشقیہ شاعری (تنقید) اردو غزل گوئی (تنقید) اندازے (مضامین ) من آنم (خطوط کا مجموعہ)
تراجم:
ایک سو ایک نظمیں (رابندر ناتھہ ٹیگور) گیتانجلی (رابندر ناتھہ ٹیگور)سادھو کی کٹیا (انگریزی ناول کا ترجمہ) ہملیٹ (شیکسپیر)
فراق کے کچھ اشعار
اب یاد رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی
یاروں نے کتنی دور بسائی ہیں بستیاں
ہم سے کیا ہو سکا محبت میں
خیر تم نے تو بے وفائی کی
اے سوز عشق تو نے مجھے کیا بنا دیا
میری ہر ایک سانس مناجات ہو گئی
حسن کو اک حسن ہی سمجھے نہیں اور اے فراق
مہرباں نا مہرباں کیا کیا سمجھ بیٹھے تھے ہم
تم مخاطب بھی ہو قریب بھی ہو
تم کو دیکھوں کہ تم سے بات کروں
طبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سنسان راتوں میں
ہم ایسے میں تری یادوں کے چادر تان لیتے ہیں
ایک مدت سے تری یاد بھی آئی نہ ہمیں
اور ہم بھول گۓ ہوں تجھے،ایسا بھی نہیں ہے
غرض کے کاٹ دیے زندگی دن اے دوست
وہ تیری یاد میں ہوں یا تجھے بھلانے میں
ذرا وصال کے بعد آئینہ تو دیکھ اے دوست
ترے جمال کی دوشیزگی نکھر آئی
اس دور میں زندگی بشر کی
بیمار کی رات ہو گئی
کیا ہے رفتار انقلاب فراقؔ
کتنی آہستہ اور کتنی تیز!
کہاں ہر ایک سے انسانیت کا بار اٹھا
کہ یہ بلا بھی ترے عاشقوں کے سر آئی
کچھ آدمی کو ہیں مجبوریاں بھی دنیا میں
ارے وہ دردِ محبت سہی تو کیا مر جائیں؟
“